آنا ہے یوں محال تو اک شب بہ خواب آ مجھ تک خدا کے واسطے ظالم شتاب آ دیتا ہوں نامہ میں تجھے اس شرط پر ابھی قاصد تو اس کے پاس سے لے کر جواب آ ایسا ہی عزم ہے تجھے گر کوئے یار کا چلتا ہوں میں بھی اے دل پر اضطراب آ یہ خستہ چشم وا ہے ترے انتظار میں اے صبح منہ دکھا کہیں اے آفتاب آ تا یہ شب فراق کی دیجور دور ہو اے رشک ماہ گھر میں مرے بے نقاب آ آب رواں و سبزہ و روئے نگار ہے ساقی شتاب ایسے میں لے کر شراب آ روئیں گلے سے لگ کے بہم خوب کوئی دم کیا دیکھتا ہے اے دل بے صبر و تاب آ بحر جہاں میں دیر شد آمد روا نہیں مانند قطرہ جا تو برنگ حباب آ قربانی آج در پہ ترے کرنی ہے مجھے لے کر کے تیغ تو بھی برائے ثواب آ شاید وہ تجھ کو دیکھ کے غم کھائے مصحفیؔ تو اس کے سامنے تو بہ چشم پر آب آ
غلام ہمدانی مصحفی