آج خوں ہو کے ٹپک پڑنے کے نزدیک ہے دل نوک نشتر ہو تو ہاں قابل تحریک ہے دل اے فلک تجھ کو قسم ہے مری اس کو نہ بجھا کہ غریبوں کو چراغ شب تاریک ہے دل ورم داغ کئی سامنے رکھ کر اس کے عشق بولا یہ اٹھا لے تری تملیک ہے دل مجھ کو حیرت ہے کہ کی عمر بسر اس نے کہاں اس جہالت پہ تو نے ترک نہ تاجیک ہے دل کمر یار کے مذکور کو جانے دے میاں تو قدم اس میں نہ رکھ راہ یہ باریک ہے دل جامۂ داغ کو ملبوس کر اپنا دن رات کیونکہ یہ جامہ ترے قد پہ نپٹ ٹھیک ہے دل مصحفیؔ اک تو میں ہوں دست خوش دیدۂ شوخ تس پہ دن رات مرے درپئے تضحیک ہے دل
غلام ہمدانی مصحفی