Iztirab

Iztirab

رخ زلف میں بے نقاب دیکھا

رخ زلف میں بے نقاب دیکھا 
میں تیرہ شب آفتاب دیکھا 
محروم ہے نامہ دار دنیا 
پانی سے تہی حباب دیکھا 
سرخی سے ترے لبوں کی ہم نے 
آتش کو میان آب دیکھا 
قاصد کا سر آیا اس گلی سے 
نامے کا مرے جواب دیکھا 
جانا یہ ہم نے وفات کے بعد 
دیکھا جو جہاں میں خواب دیکھا 
آفت کا نشانہ ہو چکا تھا 
میں دل کی طرف شتاب دیکھا 
اک وضع نہیں مزاج معشوق 
گہہ لطف و گہے عتاب دیکھا 
آنکھوں سے بہاریں گزریں کیا کیا 
کس کس کا نہ میں شباب دیکھا 
کل مے کدے میں بغیر ساقی 
اوندھا قدح شراب دیکھا 
کیں اس نے جفائیں بے حسابی 
اک دن نہ کبھو حساب دیکھا 
سینے سے نکل پڑا نہ آخر 
دل کا مرے اضطراب دیکھا 
کیا ہوگی فلاح بعد مردن 
جیتے تو سدا عذاب دیکھا 
آبادی ہے اس کی مصحفیؔ کم 
عالم کے تئیں خراب دیکھا 

غلام ہمدانی مصحفی

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *