Iztirab

Iztirab

یوں تو اس جلوہ گہہ حسن میں کیا کیا دیکھا

یوں تو اس جلوہ گہہ حسن میں کیا کیا دیکھا 
جب تجھے دیکھ چکے کوئی نہ تجھ سا دیکھا 
جب تری دھن میں کہیں لالۂ صحرا دیکھا 
ہم یہ سمجھے کہ ترا نقش کف پا دیکھا 
تارے ٹوٹے تو فضا میں تری آہٹ گونجی 
چاند نکلا تو ترا چہرۂ زیبا دیکھا 
شہر اغیار سہی اتنی خوشی کیا کم ہے 
ہم نے دیکھا تجھے اور انجمن آرا دیکھا 
ہم کو ٹھکرا کے کچھ ایسے ترے تیور بدلے 
جب سر بزم بھی دیکھا تجھے تنہا دیکھا 
ہم تو سمجھے تھے قیامت ہے فراق محبوب 
تجھ سے مل کر بھی مگر حشر ہی برپا دیکھا 
صبح جب دھوپ کے چشمے سے نہا کر نکلی 
ہم نے آئینہ بدل تیرا سراپا دیکھا 
بجلیاں اب تو ترے ابر کرم کی برسیں 
عمر بھر اپنے سلگتے کا تماشا دیکھا 
ہم جو بھٹکے بھی تو کس شان وفا سے بھٹکے 
ہم نے ہر لغزش پا میں ترا ایما دیکھا 
ہم بہ ایں تیرہ نصیبی نہ بنے تیرہ نظر 
ہم نے ہر رات کی چتون میں ستارا دیکھا 
تیری قدرت کی سیاست نہ سمجھ میں آئی 
حرم و دیر کو ہر دور میں یکجا دیکھا 
آنکھ کھولی تو جہاں کان جواہر تھا ندیمؔ 
ہاتھ پھیلائے تو ہر چیز کو عنقا دیکھا 

احمد ندیم قاسمی 

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *