دلوں سے آرزوئے عمر جاوداں نہ گئی کوئی نگاہ پس گرد کارواں نہ گئی وہ اور چیز ہے ہوتے ہیں جس سے دل شاداب تری بہار سے ویرانیٔ خزاں نہ گئی نکل کے خلد سے بھی آدمی نہ پچھتایا زمیں پہ بھی چمن آرائی گماں نہ گئی بس ایک کنج قفس تک نہ آ سکی ورنہ صبا چلی تو چمن میں کہاں کہاں نہ گئی کہاں کہاں نہ ہوئیں ثبت حسن کی مہریں کلی ہوا میں بکھر کر بھی رائیگاں نہ گئی مری دعا کی یہ غیرت ہے کتنی قابل داد کہ لب تک آئی مگر سوئے آسماں نہ گئی دیار عشق کھنڈر اور دشت دل سنسان مگر ندیمؔ کی رنگینی بیاں نہ گئی
احمد ندیم قاسمی