ایک ماحول اچھوتا چاہوں صحن کے نام پہ صحرا چاہوں کائناتیں مرے خوابوں کی اسیر اور قدرت سے میں کتنا چاہوں تربیت مری زمیں نے کی ہے میں خلاؤں میں لپکنا چاہوں جتنے تاریک گھروندے ہیں وہاں دل کی قندیل جلانا چاہوں بخشوانے کو گناہ آدم پھر سے فردوس میں جانا چاہوں دوزخ انسان پہ ہو جائے حرام رب سے یہ وعدۂ فردا چاہوں خشک پتے نہ شجر سے چھینے بس یہ احسان ہوا کا چاہوں مری ضد کون کرے گا پوری شام کو صبح کا تارا چاہوں مرا ہر کام الگ دنیا سے جس کو چاہوں اسے تنہا چاہوں ہجر کی کتنی تمازت ہے ندیمؔ اب کسی یاد کا سایا چاہوں
احمد ندیم قاسمی