کسی لا علاج رجائی نے یہ خبر چمن میں اڑائی ہے کوئی پتہ جب نہ ہو پیڑ پر تو سمجھ لو فصل گل آئی ہے کوئی اشتراک ضرور ہے وہ ہو رنگ کا کہ امنگ کا مرا دل بھی تو گل سرخ ہے ترا ہاتھ بھی تو حنائی ہے وہ کشش کچھ اور ہی چیز ہے جسے حسن کہتے ہیں اہل دل نہ جمال عارض و چشم و لب نہ کمال چست قبائی ہے سفر حیات کے موڑ پر مجھے تو ملا کہ خدا ملا یہی میرا کعبہ جستجو یہی میری حد رسائی ہے میں جھکوں تو چاند جھکا رہے میں رکوں تو وقت رکا رہے میں تری وفا کا جب اہل ہوں مرے بس میں ساری خدائی ہے میں ندیمؔ قریہ سیم و زر سے بھی سر کشیدہ گزر گیا جو مری انا کا غرور ہے مری عمر بھر کی کمائی ہے
احمد ندیم قاسمی