Iztirab

Iztirab

انگڑائی پر انگڑائی لیتی ہے رات جدائی کی

انگڑائی پر انگڑائی لیتی ہے رات جدائی کی 
تم کیا سمجھو تم کیا جانو بات مری تنہائی کی 
کون سیاہی گھول رہا تھا وقت کے بہتے دریا میں 
میں نے آنکھ جھکی دیکھی ہے آج کسی ہرجائی کی 
ٹوٹ گئے سیال نگینے پھوٹ بہے رخساروں پر 
دیکھو میرا ساتھ نہ دینا بات ہے یہ رسوائی کی 
وصل کی رات نہ جانے کیوں اصرار تھا ان کو جانے پر 
وقت سے پہلے ڈوب گئے تاروں نے بڑی دانائی کی 
اڑتے اڑتے آس کا پنچھی دور افق میں ڈوب گیا 
روتے روتے بیٹھ گئی آواز کسی سودائی کی 

قتیل شفائی

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *