Iztirab

Iztirab

دل بے تاب کو کب وصل کا یارا ہوتا

دل بے تاب کو کب وصل کا یارا ہوتا
شادیٔ دولت دیدار نے مارا ہوتا
شب غم زہر ہی کھانے کا مزہ تھا ورنہ
انتظار سحر وصل نے مارا ہوتا
شب ہجراں کی بلا ٹالے نہیں ٹلتی ہے
بھور کر دیتے اگر زور ہمارا ہوتا
آئی جس شان سے مدفن میں سواری میری
دیکھتے غیر تو مرنا ہی گوارا ہوتا
کیوں نہ سینے سے لگی رہتی امانت تیری
داغ دل کیوں نہ ہمیں جان سے پیارا ہوتا
سر جھکائے تری امید پہ بیٹھے ہیں ہم
قاتل اس بار امانت کو اتارا ہوتا
ایک ہو جاتی ابھی کافر و دیں دار کی راہ
اگر ان جٹی بھوؤں کا اک اشارا ہوتا
بھیگتی جاتی ہے رات اور ابھی صحبت ہے گرم
جام لب ریز اسی عالم میں ہمارا ہوتا
نگہ لطف سے محروم ہوں اب تک ساقی
صف آخر کی طرف بھی اک اشارا ہوتا
دور سے ساغر و مینا کو کھڑا تکتا ہوں
دل کوئی رکھتا تو مجھ کو بھی پکارا ہوتا
دور اتنی نہ کبھی کھنچتی عدم کی منزل
کاش کچھ نقش قدم ہی کا سہارا ہوتا
یاس اب آپ کہاں اور کہاں بانگ جرس
کون اس وادی غربت میں تمہارا ہوتا
دیکھتے رہ گئے یاسؔ آپ نے اچھا نہ کیا
ڈوبتے وقت کسی کو تو پکارا ہوتا
صورت ظاہری اک پردہ تاریک تھی یاسؔ
حسن معنی کا کن آنکھیوں سے نظارہ ہوتا

یگانہ چنگیزی

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *