Masud Husain Khan
- 28 January 1919-16 October 2010
- Qaimganj, British India
Introduction
“Poetry is when an emotion has found its thought and the thought founds words”. Masud Husain Khan was an Urdu poet. His poetry is famous among poetry lovers. A vast collection of his poetry is available here. Read on his poetry to explore a whole new world.
Ghazal
عشق میں اضطراب رہتا ہے
عشق میں اضطراب رہتا ہے جی نہایت خراب رہتا ہے خواب سا کچھ خیال ہے لیکن جان پر اک عذاب رہتا ہے تشنگی جی کی
ترے دیار میں کوئی بھی ہم زباں نہ ملا
ترے دیار میں کوئی بھی ہم زباں نہ ملا ہزار نقش ملے کوئی راز داں نہ ملا میں سوچتا ہوں کہ یہ بھی حسین ہیں
تجھے بہار ملی مجھ کو انتظار ملا
تجھے بہار ملی مجھ کو انتظار ملا اس انتظار میں لیکن کسے قرار ملا کسی کی آنکھوں میں تاروں کی مسکراہٹ ہے کسی کی آنکھوں
ترے خیال میں دل آج سوگوار سا ہے
ترے خیال میں دل آج سوگوار سا ہے مجھے گمان ہے کچھ اس کو انتظار سا ہے میں سادہ دل تھا کہ دامن پہ ان
ہم نے تو جستجو کو بھی ہے مدعا کیا
ہم نے تو جستجو کو بھی ہے مدعا کیا یعنی کہ دل کے درد کو حسن نوا کیا ہر جنبش نظر میں نہاں تیرے انقلاب
جاں بھی پرسوز ہو انجام تمنا کیا ہے
جاں بھی پرسوز ہو انجام تمنا کیا ہے کوئی بتلائے کہ جینے کا بہانا کیا ہے میری آنکھوں میں نمی بھی ہو تو واللہ کیا
مری افسردہ دلی گردش ایام سے ہے
مری افسردہ دلی گردش ایام سے ہے لوگ کہتے ہیں محبت کسی گلفام سے ہے چشم ساقی نے بھی یہ مشورہ نیک دیا کہ علاج
تری وفا میں مرے انتظار میں کیا تھا
تری وفا میں مرے انتظار میں کیا تھا خزاں کے درد میں زخم بہار میں کیا تھا یہ سوچنا تھا نہ ہو جائیں اس قدر
عشق میں اضطراب رہتا ہے
عشق میں اضطراب رہتا ہے جی نہایت خراب رہتا ہے خواب سا کچھ خیال ہے لیکن جان پر اک عذاب رہتا ہے تشنگی جی کی
تیرے کھونے کا کس قدر غم ہے
تیرے کھونے کا کس قدر غم ہے آج عالم تمام مبہم ہے دیکھتا ہوں نظر نہیں آتا کیسا نیرنگ چشم پر نم ہے درد ٹھہرا
میں نے کہا کہ راز چھپایا نہ جائے گا
میں نے کہا کہ راز چھپایا نہ جائے گا بولے کسی سے منہ بھی لگایا نہ جائے گا ہو ایک دو گھڑی کا تو ہم
ابھی چمن میں کوئی فتنہ کار باقی ہے
ابھی چمن میں کوئی فتنہ کار باقی ہے بہار باقی ہے زخم بہار باقی ہے یہ انتظار کی گھڑیاں کنار جوئے چشم امید ڈوب چکی
Nazm
جمال
کہاں سے آ گئیں رنگینیاں تمنا میں کہ پھر خیال نے لالے کھلائے صحرا میں تری نگاہ سے میری نظر میں مستی ہے ترے جمال
وادی گل
دید ہی دید ہے اے عمر رواں کچھ بھی نہیں یہ جہاں کتنا حسیں ہے یہ جہاں کچھ بھی نہیں یہ تبسم یہ تکلم یہ
جمال
کہاں سے آ گئیں رنگینیاں تمنا میں کہ پھر خیال نے لالے کھلائے صحرا میں تری نگاہ سے میری نظر میں مستی ہے ترے جمال
ایک کہانی
رات کل فضاؤں میں تیری ہی کہانی تھی ہم بھی سننے والے تھے دل کی پاسبانی تھی آسماں سے آمد تھی گم شدہ خیالوں کی
زندگانی کا خلا
زندگانی کا خلا یہ نہ بھر پایا کبھی لالہ و گل کو کبھی پیار کیا رات بھر تاروں کو بیدار کیا کم نہ ہوتی تھی
پیرمغان اردو
سونا سونا سا ہے کیوں آج جہان اردو اٹھ گیا کہتے ہیں اک پیر مغان اردو جس کو ڈھونڈیں گے سدا تشنہ لبان تحقیق روئیں
ہند کی یہ شب مہتاب
آج بھی تیرے لئے سوزش غم کم تو نہیں زخم دل پر ترے ہمدم کوئی مرہم تو نہیں تو جو پھولوں کی طرح پھول کر
وادی گل
دید ہی دید ہے اے عمر رواں کچھ بھی نہیں یہ جہاں کتنا حسیں ہے یہ جہاں کچھ بھی نہیں یہ تبسم یہ تکلم یہ
سخن واپسیں
دوا سے کچھ نہ ہوا اور دعا سے کچھ نہ ملا بشر نے کچھ نہ دیا اور خدا سے کچھ نہ ملا زوال میرا مقدر
Sher
تیری باتوں پہ کون لائے دلیل
تیری باتوں پہ کون لائے دلیل دل ہے سو لا جواب رہتا ہے مسعود حسین خان
خواب سا کچھ خیال ہے لیکن
خواب سا کچھ خیال ہے لیکن جان پر اک عذاب رہتا ہے مسعود حسین خان
رنگ اڑایا ہے زمانے نے جہاں سے مسعود
رنگ اڑایا ہے زمانے نے جہاں سے مسعودؔ اپنی نسبت بھی اسی یار گل اندام سے ہے مسعود حسین خان
چشم ساقی نے بھی یہ مشورہ نیک دیا
چشم ساقی نے بھی یہ مشورہ نیک دیا کہ علاج غم دل تلخی بد نام سے ہے مسعود حسین خان
دل سلگتا ہے سلگتا رہے جلتا ہے جلے
دل سلگتا ہے سلگتا رہے جلتا ہے جلے ایسی باتوں سے بھلا عشق میں بنتا کیا ہے مسعود حسین خان
کس بھاری دل سے جاتے ہیں ہم اس کے در پہ آج
کس بھاری دل سے جاتے ہیں ہم اس کے در پہ آج سر جھک گیا وہاں تو اٹھایا نہ جائے گا مسعود حسین خان
ہو ایک دو گھڑی کا تو ہم جی پہ سہہ بھی لیں
ہو ایک دو گھڑی کا تو ہم جی پہ سہہ بھی لیں آٹھوں پہر کا غم تو اٹھایا نہ جائے گا مسعود حسین خان
اک چومتی ہوئی سی نظر ڈال کر
اک چومتی ہوئی سی نظر ڈال کر مسعودؔ تم نے ایک صنم کو خدا کیا مسعود حسین خان
ہر جنبش نظر میں نہاں تیرے انقلاب
ہر جنبش نظر میں نہاں تیرے انقلاب مجھ کو گھٹا دیا کبھی مجھ کو سوا کیا مسعود حسین خان
لبوں نے پھول تراشے نظر نے برسائے
لبوں نے پھول تراشے نظر نے برسائے مگر وہ کاوش مژگان یار میں کیا تھا مسعود حسین خان
میں تجھ سے رمز محبت کہوں تو کیسے کہوں
میں تجھ سے رمز محبت کہوں تو کیسے کہوں میں بے قرار ہوں اور تجھ کو کچھ قرار سا ہے مسعود حسین خان
وہ معتبر تو نہیں ہے پر اس کو کیا کیجے
وہ معتبر تو نہیں ہے پر اس کو کیا کیجے کہ اس کے وعدوں پہ پھر آج اعتبار سا ہے مسعود حسین خان
Geet
یاد کی لہروں پر تم آؤ
یاد کی لہروں پر تم آؤ سوچ میں آنکھ ہے سوچ میں ہے من من کی سوچ بنے جب الجھن تم آنسو بن کر شرماؤ
رنگ دو نا جیون کے کچھ پل
رنگ دو نا جیون کے کچھ پل پریم چبھن سے میں الجھن میں امرت رس ہو کر تم برسو اترو ایک کرن بن من میں
جیون پتھ پر
جیون پتھ پر چل چل کر جب تھک تھک جاتے تم یاد آتے چاہت اس کی چاہت اس کی ہر ہر پل اک نئی خوشی
Aticle
اقبال کی عملی شعریات
ڈاکٹر یوسف حسین اور مجنوں گورکھپوری دونوں نے اقبال کی شاعری کی اس خصوصیت کو سب سے زیادہ نمایاں اور موثر بتایا ہے جس کو
اردو زبان
اردو زبان صحیح معنوں میں ایک مخلوط زبان ہے، جیسا کہ اس کے ایک تاریخی نام ’’ریختہ‘‘ سے بھی ظاہر ہے۔ یوں تو دنیا کی