Iztirab

Iztirab

ابھی وہ کمسن ابھر رہا ہے ابھی ہے اس پر شباب آدھا

ابھی وہ کمسن ابھر رہا ہے ابھی ہے اس پر شباب آدھا 
ابھی جگر میں خلش ہے آدھی ابھی ہے مجھ پر عتاب آدھا 
حجاب و جلوہ کی کشمکش میں اٹھایا اس نے نقاب آدھا 
ادھر ہویدا سحاب آدھا ادھر عیاں ماہتاب آدھا 
مرے سوال وصال پر تم نظر جھکا کر کھڑے ہوئے ہو 
تمہیں بتاؤ یہ بات کیا ہے سوال پورا جواب آدھا 
لپک کے مجھ کو گلے لگایا خدا کی رحمت نے روز محشر 
ابھی سنایا تھا محتسب نے مرے گنہ کا حساب آدھا 
بجا کہ اب بال تو سیہ ہیں مگر بدن میں سکت نہیں ہے 
شباب لایا خضاب لیکن خضاب لایا شباب آدھا 
لگا کے لاسے پہ لے کے آیا ہوں شیخ صاحب کو مے کدے تک 
اگر یہ دو گھونٹ آج پی لیں ملے گا مجھ کو ثواب آدھا 
کبھی ستم ہے کبھی کرم ہے کبھی توجہ کبھی تغافل 
یہ صاف ظاہر ہے مجھ پہ اب تک ہوا ہوں میں کامیاب آدھا 
کسی کی چشم سرور آور سے اشک عارض پہ ڈھل رہا ہے 
اگر شعور نظر ہے دیکھو شراب آدھی گلاب آدھا 
پرانے وقتوں کے لوگ خوش ہیں مگر ترقی پسند خاموش 
تری غزل نے کیا ہے برپا سحرؔ ابھی انقلاب آدھا 

کنور مہیندر سنگھ بیدی سحر

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *