Adil Raza Mansoori
- 1978
- Jaipur, India
Introduction
“Poetry is when an emotion has found its thought and the thought founds words”. He is an Urdu poet. His poetry is famous among poetry lovers. A vast collection of his poetry is available here. Read on his poetry to explore a whole new world.
Ghazal
راستے سکھاتے ہیں کس سے کیا الگ رکھنا
راستے سکھاتے ہیں کس سے کیا الگ رکھنا منزلیں الگ رکھنا قافلہ الگ رکھنا بعد ایک مدت کے لوٹ کر وہ آیا ہے آج تو
چاند تارے بنا کے کاغذ پر
چاند تارے بنا کے کاغذ پر خوش ہوئے گھر سجا کے کاغذ پر بستیاں کیوں تلاش کرتے ہیں لوگ جنگل اگا کے کاغذ پر جانے
جو اشک بن کے ہماری پلک پہ بیٹھا تھا
جو اشک بن کے ہماری پلک پہ بیٹھا تھا تمہیں بھی یاد ہے اب تک وہ خواب کس کا تھا ہمیشہ پوچھتی رہتی ہے راستوں
سفر کے بعد بھی مجھ کو سفر میں رہنا ہے
سفر کے بعد بھی مجھ کو سفر میں رہنا ہے نظر سے گرنا بھی گویا خبر میں رہنا ہے ابھی سے اوس کو کرنوں سے
وہاں شاید کوئی بیٹھا ہوا ہے
وہاں شاید کوئی بیٹھا ہوا ہے ابھی کھڑکی میں اک جلتا دیا ہے مرا دل بھی عجب خالی ویا ہے کسی کی یاد نے جس
پاؤں پتوں پہ دھیرے سے دھرتا ہوا
پاؤں پتوں پہ دھیرے سے دھرتا ہوا وہ گزر جائے گا یوں ہی ڈرتا ہوا بوجھ سورج کا سر پر اٹھانے کو ہے ایک سایہ
دن کے سینے پہ شام کا پتھر
دن کے سینے پہ شام کا پتھر ایک پتھر پہ دوسرا پتھر یہ سنا تھا کہ دیوتا ہے وہ میرے حق ہی میں کیوں ہوا
ایک اک لمحے کو پلکوں پہ سجاتا ہوا گھر
ایک اک لمحے کو پلکوں پہ سجاتا ہوا گھر راس آتا ہے کسے ہجر مناتا ہوا گھر خواب کے خدشے سے اب نیند اڑی جاتی
Nazm
دو اجنبی
اک پتی کے ٹوٹنے گرنے کی آواز سے سحر اٹھا ہے سہمتا پیڑ بے تعلق شاخ پر بیٹھی ہے چڑیا ناک کے نیچے پڑا ہے
لباس
لٹکا دیا دن کھونٹی پر ہینگر سے اتاری رات پہننے کے لیے دن اور رات ہو گئے کتنے پرانے اگلے سفر کے لیے مناسب ہوگا
میں
پسند آئے گا آہنگ عکس پیکر نکالو گے جو بھی معنی وہ سب تمہارے ہیں میرا کیا میں تو ہوں لفظ عادل رضا منصوری
نہ ہاتھ باگ پر ہے نہ پا ہے رکاب میں
پلٹ کر دیکھ بھر سکتی ہیں بھیڑیں بولنا چاہیں بھی تو بولیں گی کیسے ہو چکی ہیں سلب آوازیں کبھی کی لوٹنا ممکن نہیں ہے
پتے کا غم
اس کے ہرے رہنے سوکھنے جھڑنے سے فرق کچھ پڑتا نہیں ہے پیڑ کو کیا اسی غم میں گھل جاتا ہے پتہ عادل رضا منصوری
روایت
ہر روز بدل جاتا ہے کچھ نہ کچھ کمرہ ہر ہفتہ عشرے میں نئے سلیقے سے سجایا جاتا ہے سامان وقت کے ساتھ بدل جاتی
ناکردہ گناہ
بکھر گیا ہوا کے تھپیڑے سے گھونسلہ ملاؤں گا کیسے نظر لوٹ کر آئی اگر چڑیا عادل رضا منصوری
بدلاؤ
بجا ہے کہ بارشوں سے پہلے بھی اداس تھا جنگل اور اب بھی ہے جب ہو چکی ہے بارش لگتا ہے ٹھہر گیا ہے موسم
وارتیا دوش
نہیں مٹتی کسی کی بھوک روٹی سے نہیں کرتے کسی کے درد کا درماں آنسو کہیں ہوتا اثر دی ہوئی دعاؤں کا نہیں اٹھتا کوئی
پس و پیش
سمٹ آئے ہیں ساتوں سمندر ایک قطرے میں جس میں سمٹ آئے تھے ساتوں آسمان وہ قطرہ اب ٹپکنا چاہتا ہے پلکوں سے مجھے یہ
پیش رو
جہاں سے ہوا تھا شروع سفر دیکھا وہاں کوئی نہیں تھا سامنے تھا منتظر صحرا سفر کا اور سائے خار دار دیکھتے رکتے ٹھیک ویسے
Sher
لوگ ساحل تلاش کرتے ہیں
لوگ ساحل تلاش کرتے ہیں ایک دریا بہا کے کاغذ پر عادل رضا منصوری
مری خاموشیوں کی جھیل میں پھر
مری خاموشیوں کی جھیل میں پھر کسی آواز کا پتھر گرا ہے عادل رضا منصوری
وہاں شاید کوئی بیٹھا ہوا ہے
وہاں شاید کوئی بیٹھا ہوا ہے ابھی کھڑکی میں اک جلتا دیا ہے عادل رضا منصوری
سفر کے بعد بھی مجھ کو سفر میں رہنا ہے
سفر کے بعد بھی مجھ کو سفر میں رہنا ہے نظر سے گرنا بھی گویا خبر میں رہنا ہے عادل رضا منصوری
تمہارے بعد کوئی راستہ نہیں ملتا
تمہارے بعد کوئی راستہ نہیں ملتا تو طے ہوا کہ اداسی کے گھر میں رہنا ہے عادل رضا منصوری