Aale Ahmad Suroor
- 09 November 1911 - 09 February 2022
- Badayun, India
Introduction
“Poetry is when an emotion has found its thought and the thought founds words”. He is an Urdu poet. His poetry is famous among poetry lovers. A vast collection of his poetry is available here. Read on his poetry to explore a whole new world.
Ghazal
ہر اک جنت کے رستے ہو کے دوزخ سے نکلتے ہیں
ہر اک جنت کے رستے ہو کے دوزخ سے نکلتے ہیں انہیں کا حق ہے پھولوں پر جو انگاروں پہ چلتے ہیں حقائق ان سے
ایک دیوانے کو اتنا ہی شرف کیا کم ہے
ایک دیوانے کو اتنا ہی شرف کیا کم ہے زلف و زنجیر سے یک گونہ شغف کیا کم ہے کون اس دور میں کرتا ہے
غیرت عشق کا یہ ایک سہارا نہ گیا
غیرت عشق کا یہ ایک سہارا نہ گیا لاکھ مجبور ہوئے ان کو پکارا نہ گیا کیا لہو روئے تو آیا ہے بہاروں کا سلام
خوابوں سے یوں تو روز بہلتے رہے ہیں ہم
خوابوں سے یوں تو روز بہلتے رہے ہیں ہم کتنی حقیقتوں کو بدلتے رہے ہیں ہم اپنے غبار میں بھی ہے وہ ذوق سرکشی پامال
یوں جو افتاد پڑے ہم پہ وہ سہہ جاتے ہیں
یوں جو افتاد پڑے ہم پہ وہ سہہ جاتے ہیں ہاں کبھی بات جو کہنے کی ہے کہہ جاتے ہیں نہ چٹانوں کی صلابت ہے
تو پیمبر سہی یہ معجزہ کافی تو نہیں
تو پیمبر سہی یہ معجزہ کافی تو نہیں شاعری زیست کے زخموں کی تلافی تو نہیں سایۂ گل میں ذرا دیر جو سستائے ہیں سایۂ
وہ جئیں کیا جنہیں جینے کا ہنر بھی نہ ملا
وہ جئیں کیا جنہیں جینے کا ہنر بھی نہ ملا دشت میں خاک اڑاتے رہے گھر بھی نہ ملا نہ پرانوں سے نبھی اور نہ
سیاہ رات کی سب آزمائشیں منظور ردیف
سیاہ رات کی سب آزمائشیں منظور کسی سحر کے اجالے کا آسرا تو ملا نظر ملا نہ سکے ہم سے وہ تو غم کیا ہے
خشک کھیتی ہے مگر اس کو ہری کہتے ہیں
خشک کھیتی ہے مگر اس کو ہری کہتے ہیں کم نگاہی کو بھی وہ دیدہ وری کہتے ہیں فکر روشن کو وہ شوریدہ سری کہتے
سفر طویل سہی حاصل سفر کیا تھا
سفر طویل سہی حاصل سفر کیا تھا ہمارے پاس بجز دولت نظر کیا تھا یہ ظلمتوں کے پرستار کیا خبر ہوتے مری نوا میں بجز
زنجیر سے جنوں کی خلش کم نہ ہو سکی
زنجیر سے جنوں کی خلش کم نہ ہو سکی بھڑکی اگر یہ آنچ تو مدھم نہ ہو سکی بدلے بہار لالہ و گل نے ہزار
فغان درد میں بھی درد کی خلش ہی نہیں
فغان درد میں بھی درد کی خلش ہی نہیں دلوں میں آگ لگی ہے مگر تپش ہی نہیں کہاں سے لائیں وہ سوز و گداز
Nazm
Sher
اب دھنک کے رنگ بھی ان کو بھلے لگتے نہیں
اب دھنک کے رنگ بھی ان کو بھلے لگتے نہیں مست سارے شہر والے خون کی ہولی میں تھے آل احمد سرور
ہستی کے بھیانک نظارے ساتھ اپنے چلے ہیں دنیا سے
ہستی کے بھیانک نظارے ساتھ اپنے چلے ہیں دنیا سے یہ خواب پریشاں اور ہم کو تا صبح قیامت سونا ہے آل احمد سرور
آج پی کر بھی وہی تشنہ لبی ہے ساقی
آج پی کر بھی وہی تشنہ لبی ہے ساقی لطف میں تیرے کہیں کوئی کمی ہے ساقی آل احمد سرور
جہاں میں ہو گئی نا حق تری جفا بد نام
جہاں میں ہو گئی نا حق تری جفا بد نام کچھ اہل شوق کو دار و رسن سے پیار بھی ہے آل احمد سرور
لوگ مانگے کے اجالے سے ہیں ایسے مرعوب
لوگ مانگے کے اجالے سے ہیں ایسے مرعوب روشنی اپنے چراغوں کی بری لگتی ہے آل احمد سرور
جو ترے در سے اٹھا پھر وہ کہیں کا نہ رہا
جو ترے در سے اٹھا پھر وہ کہیں کا نہ رہا اس کی قسمت میں رہی در بدری کہتے ہیں آل احمد سرور
وہ تبسم ہے کہ غالبؔ کی طرح دار غزل
وہ تبسم ہے کہ غالبؔ کی طرح دار غزل دیر تک اس کی بلاغت کو پڑھا کرتے ہیں آل احمد سرور
ابھی آتے نہیں اس رند کو آداب مے خانہ
ابھی آتے نہیں اس رند کو آداب مے خانہ جو اپنی تشنگی کو فیض ساقی کی کمی سمجھے آل احمد سرور
داستان شوق کتنی بار دہرائی گئی
داستان شوق کتنی بار دہرائی گئی سننے والوں میں توجہ کی کمی پائی گئی آل احمد سرور
ہے تیرے غم کی غم روزگار سے سازش
ہے تیرے غم کی غم روزگار سے سازش کہاں کہاں دل دیوانہ کام آتا ہے آل احمد سرور
Quote
Article
اردو تنقید ایک جائزہ
جناب وائس چانسلر صاحب، صدر شعبۂ ا ردو، مہمانان گرامی، خواتین و حضرات، حالیؔ کا مقدمہ شعر و شاعری ۱۸۹۳ء میں شائع ہوا۔ مقدمہ ہماری
غالب کی شاعری کی معنویت
میں حالیؔ کا بڑا احترام کرتا ہوں۔ حالیؔ ہمارے ایک بزرگ شاعر اور پہلے نقاد ہیں۔ حالیؔ کی متین، دھیمی اور باوقار لے نے بیسویں
ادب میں جدیدیت کا مفہوم
جدیدیت کا ایک تاریخی تصور ہے، ایک فلسفیانہ تصور ہے اور ایک ادبی تصور ہے۔ مگر جدیدیت ایک اضافی چیز ہے، یہ مطلق نہیں ہے۔
لکھنؤ اور اردو ادب
ہر دور کا ادب اس دور کی تہذیب کا آئینہ ہوتا ہے، لکھنؤ کو اٹھارویں صدی کے وسط سے لے کر انیسویں صدی کے آخر
مولانا آزاد کا اسلوب نثر
ڈاکٹر عابد حسین نے مولانا آزاد کے ادبی اسلوب کے تین دور قائم کئے ہیں، زعیمانہ، حکیمانہ اور ادیبانہ۔ سجاد انصاری نے کہاتھا کہ ’’اگر
اردو شاعری میں خمریات
شعر و ادب میں شراب کا ذکر اس کثرت سے کیوں ہوتا ہے یہ تو اس پرانے گنہگار سے پوچھئے جو مست جام شراب ہونا
ہماری مشترک تہذیب اور اردو غزل
ہماری مشترک تہذیب، اس برصغیر میں، جنوبی ایشیا، جنوبی مشرقی ایشیا اور مغربی اور وسطی ایشیا کی تہذیبوں کے اختلاط سے عبارت ہے۔ اس کی
فانی۔ شخصیت اور شاعری
شوکت علی خاں فانیؔ بدایونی کی تاریخ پیدائش۱۳؍ ستمبر ۱۸۷۹ء ہے۔ ان کے انتقال کو اڑتالیس سال ہونے کو آئے۔ (تاریخ وفات ۲۲؍اگست ۱۹۴۱ء) اپنے
حالی کے مقدمہ شعر و شاعری کی معنویت
حالیؔ کی بات ہو تو سجاد انصاری کایہ قول ضرور یاد آتا ہے کہ ’’میں اس حالیؔ کا قائل ہوں جس نے پہلے شاعری کی
اقبال کی سیاسی فکر۔ ایک طائرانہ نظر
اقبال کی فکر میں ایک وحدت ہے۔ ان کی سیاسی فکر کو ان کے فلسفہ خودی سے الگ نہیں کیا جا سکتا۔ اگرچہ انہوں نے
اردوئے معلی
اردو ادب کی تاریخ میں جن رسالوں کے نام خصوصیت سے قابل ذکر ہیں، ان میں دل گداز، مخزن، اردوئے معلیّٰ، زمانہ، نگار اور اردو
اردو تنقید کے بنیادی افکار
اردو میں تنقید مغرب کی دین ہے، تنقیدی شعور اس سے پہلے بھی تھا اور ایک طرف یہ فن کاروں کے اشارات ونکات میں ظاہر