Abbas Tabish
- 15 June 1961
- Lahore, Pakistan
Introduction
“Poetry is when an emotion has found its thought and the thought founds words”. He is an Urdu poet. His poetry is famous among poetry lovers. A vast collection of his poetry is available here. Read on his poetry to explore a whole new world.
Ghazal
کوئی ملتا نہیں یہ بوجھ اٹھانے کے لیے
کوئی ملتا نہیں یہ بوجھ اٹھانے کے لیے شام بے چین ہے سورج کو گرانے کے لیے اپنے ہم زاد درختوں میں کھڑا سوچتا ہوں
شعر لکھنے کا فائدہ کیا ہے
شعر لکھنے کا فائدہ کیا ہے اس سے کہنے کو اب رہا کیا ہے پہلے سے طے شدہ محبت میں تو بتا تیرا مشورہ کیا
ہوائے تیز ترا ایک کام آخری ہے
ہوائے تیز ترا ایک کام آخری ہے کہ نخل خشک پہ ماہ تمام آخری ہے میں جس سکون سے بیٹھا ہوں اس کنارے پر سکوں
ڈوب کر بھی نہ پڑا فرق گراں جانی میں
ڈوب کر بھی نہ پڑا فرق گراں جانی میں میں ہوں پتھر کی طرح بہتے ہوئے پانی میں یہ محبت تو بہت بعد کا قصہ
بیٹھتا اٹھتا تھا میں یاروں کے بیچ
بیٹھتا اٹھتا تھا میں یاروں کے بیچ ہو گیا دیوار دیواروں کے بیچ جانتا ہوں کیسے ہوتی ہے سحر زندگی کاٹی ہے بیماروں کے بیچ
بہت بیکار موسم ہے مگر کچھ کام کرنا ہے
بہت بیکار موسم ہے مگر کچھ کام کرنا ہے کہ تازہ زخم ملنے تک پرانا زخم بھرنا ہے ابھی سادہ ورق پر نام تیرا لکھ
اتنا آساں نہیں مسند پہ بٹھایا گیا میں
اتنا آساں نہیں مسند پہ بٹھایا گیا میں شہر تہمت تری گلیوں میں پھرایا گیا میں میرے ہونے سے یہاں آئی ہے پانی کی بہار
یاد کر کر کے اسے وقت گزارا جائے
یاد کر کر کے اسے وقت گزارا جائے کس کو فرصت ہے وہاں کون دوبارہ جائے شک سا ہوتا ہے ہر اک پہ کہ کہیں
نہ تجھ سے ہے نہ گلا آسمان سے ہوگا
نہ تجھ سے ہے نہ گلا آسمان سے ہوگا تری جدائی کا جھگڑا جہان سے ہوگا تمہارے میرے تعلق کا لوگ پوچھتے ہیں کہ جیسے
شجر سمجھ کے مرا احترام کرتے ہیں
شجر سمجھ کے مرا احترام کرتے ہیں پرندے رات کو مجھ میں قیام کرتے ہیں سنو تم آخر شب گفتگو درختوں کی یہ کم کلام
وہ چاند ہو کہ چاند سا چہرہ کوئی تو ہو
وہ چاند ہو کہ چاند سا چہرہ کوئی تو ہو ان کھڑکیوں کے پار تماشا کوئی تو ہو لوگو اسی گلی میں مری عمر کٹ
میرے اعصاب معطل نہیں ہونے دیں گے
میرے اعصاب معطل نہیں ہونے دیں گے یہ پرندے مجھے پاگل نہیں ہونے دیں گے تو خدا ہونے کی کوشش تو کرے گا لیکن ہم
Nazm
Sher
ہم ہیں سوکھے ہوئے تالاب پہ بیٹھے ہوئے ہنس
ہم ہیں سوکھے ہوئے تالاب پہ بیٹھے ہوئے ہنس جو تعلق کو نبھاتے ہوئے مر جاتے ہیں عباس تابش
ہجر کو حوصلہ اور وصل کو فرصت درکار
ہجر کو حوصلہ اور وصل کو فرصت درکار اک محبت کے لیے ایک جوانی کم ہے عباس تابش
اگر یونہی مجھے رکھا گیا اکیلے میں
اگر یونہی مجھے رکھا گیا اکیلے میں بر آمد اور کوئی اس مکان سے ہوگا عباس تابش
چاند چہرے مجھے اچھے تو بہت لگتے ہیں
چاند چہرے مجھے اچھے تو بہت لگتے ہیں عشق میں اس سے کروں گا جسے اردو آئے عباس تابش
تیری روح میں سناٹا ہے اور مری آواز میں چپ
تیری روح میں سناٹا ہے اور مری آواز میں چپ تو اپنے انداز میں چپ ہے میں اپنے انداز میں چپ عباس تابش
فقط مال و زر دیوار و در اچھا نہیں لگتا
فقط مال و زر دیوار و در اچھا نہیں لگتا جہاں بچے نہیں ہوتے وہ گھر اچھا نہیں لگتا عباس تابش
گھر پہنچتا ہے کوئی اور ہمارے جیسا
گھر پہنچتا ہے کوئی اور ہمارے جیسا ہم ترے شہر سے جاتے ہوئے مر جاتے ہیں عباس تابش
بولتا ہوں تو مرے ہونٹ جھلس جاتے ہیں
بولتا ہوں تو مرے ہونٹ جھلس جاتے ہیں اس کو یہ بات بتانے میں بڑی دیر لگی عباس تابش
تم مانگ رہے ہو مرے دل سے مری خواہش
تم مانگ رہے ہو مرے دل سے مری خواہش بچہ تو کبھی اپنے کھلونے نہیں دیتا عباس تابش
بس ایک موڑ مری زندگی میں آیا تھا
بس ایک موڑ مری زندگی میں آیا تھا پھر اس کے بعد الجھتی گئی کہانی میری عباس تابش
میں اپنے آپ میں گہرا اتر گیا شاید
میں اپنے آپ میں گہرا اتر گیا شاید مرے سفر سے الگ ہو گئی روانی مری عباس تابش
میں اسے دیکھ کے لوٹا ہوں تو کیا دیکھتا ہوں
میں اسے دیکھ کے لوٹا ہوں تو کیا دیکھتا ہوں شہر کا شہر مجھے دیکھنے آیا ہوا ہے عباس تابش