Abbas Tabish
- 15 June 1961
- Lahore, Pakistan
Introduction
“Poetry is when an emotion has found its thought and the thought founds words”. He is an Urdu poet. His poetry is famous among poetry lovers. A vast collection of his poetry is available here. Read on his poetry to explore a whole new world.
Ghazal
بدن کے چاک پر ظرف نمو تیار کرتا ہوں
بدن کے چاک پر ظرف نمو تیار کرتا ہوں میں کوزہ گر ہوں اور مٹی کا کاروبار کرتا ہوں مری خندق میں اس کے قرب
طلسم خواب سے میرا بدن پتھر نہیں ہوتا
طلسم خواب سے میرا بدن پتھر نہیں ہوتا مری جب آنکھ کھلتی ہے میں بستر پر نہیں ہوتا یقیں آتا نہیں تو مجھ کو یا
مکاں بھر ہم کو ویرانی بہت ہے
مکاں بھر ہم کو ویرانی بہت ہے مگر یہ دل کہ سیلانی بہت ہے ہمارے پاؤں الٹے ہیں سو ہم کو پلٹ جانے میں آسانی
یہ کس کے خوف کا گلیوں میں زہر پھیل گیا
یہ کس کے خوف کا گلیوں میں زہر پھیل گیا کہ ایک نعش کے مانند شہر پھیل گیا نہیں گرفت میں تا حد خاک کا
پرندے پوچھتے ہیں تم نے کیا قصور کیا
پرندے پوچھتے ہیں تم نے کیا قصور کیا وہ کیا کہیں جنہیں ہجرت نے گھر سے دور کیا یہی بہت ہے کہ اس عہد بے
راتیں گزارنے کو تری رہ گزر کے ساتھ
راتیں گزارنے کو تری رہ گزر کے ساتھ گھر سے نکل پڑا ہوں میں دیوار و در کے ساتھ دستک نے ایسا حشر اٹھایا کہ
یہ دیکھ مرے نقش کف پا مرے آگے
یہ دیکھ مرے نقش کف پا مرے آگے آگے بھی کہاں جاتا ہے رستہ مرے آگے اے تشنہ لبی تو نے کہاں لا کے ڈبویا
نقش سارے خاک کے ہیں سب ہنر مٹی کا ہے
نقش سارے خاک کے ہیں سب ہنر مٹی کا ہے اس دیار رنگ و بو میں بست و در مٹی کا ہے کچھ تو اپنی
پس غبار بھی اڑتا غبار اپنا تھا
پس غبار بھی اڑتا غبار اپنا تھا ترے بہانے ہمیں انتظار اپنا تھا اسی لیے ہمیں سورج نے ساتھ رکھا تھا کہ اک ستارے پہ
ہر چند تری یاد جنوں خیز بہت ہے
ہر چند تری یاد جنوں خیز بہت ہے میں جاگ رہا ہوں کہ ہوا تیز بہت ہے کیوں کر نہ مرے تن سے چھلک جائے
نیا پرندہ قفس سے باہر بنا رہا ہوں
نیا پرندہ قفس سے باہر بنا رہا ہوں میں اپنی مرضی کا پیش منظر بنا رہا ہوں مجھے بھی اوروں کی طرح کاغذ ملا ہے
دشت حیرت میں سبیل تشنگی بن جائیے
دشت حیرت میں سبیل تشنگی بن جائیے جو کبھی پوری نہ ہو ایسی کمی بن جائیے رات بھر رہیے مرے ہم راہ نیندوں کی طرح
Nazm
Sher
کچھ تو اپنی گردنیں کج ہیں ہوا کے زور سے
کچھ تو اپنی گردنیں کج ہیں ہوا کے زور سے اور کچھ اپنی طبیعت میں اثر مٹی کا ہے عباس تابش
دے اسے بھی فروغ حسن کی بھیک
دے اسے بھی فروغ حسن کی بھیک دل بھی لگ کر قطار میں آیا عباس تابش
سن رہا ہوں ابھی تک میں اپنی ہی آواز کی بازگشت
سن رہا ہوں ابھی تک میں اپنی ہی آواز کی بازگشت یعنی اس دشت میں زور سے بولنا بھی اکارت گیا عباس تابش
خوب اتنا تھا کہ دیوار پکڑ کر نکلا
خوب اتنا تھا کہ دیوار پکڑ کر نکلا اس سے ملنے کے لیے صورت سایہ گیا میں عباس تابش