Abdul Hamid Adam
- 10 April 1909-10 March 1981
- Gujranwala, Pakistan
Introduction
“Poetry is when an emotion has found its thought and the thought founds words”. Abdul Hamid Adam was an Urdu poet. His poetry is famous among poetry lovers. A vast collection of his poetry is available here. Read on his poetry to explore a whole new world.
Ghazal
کشتی چلا رہا ہے مگر کس ادا کے ساتھ
کشتی چلا رہا ہے مگر کس ادا کے ساتھ ہم بھی نہ ڈوب جائیں کہیں نا خدا کے ساتھ دل کی طلب پڑی ہے تو
تکلیف مٹ گئی مگر احساس رہ گیا
تکلیف مٹ گئی مگر احساس رہ گیا خوش ہوں کہ کچھ نہ کچھ تو مرے پاس رہ گیا پل بھر میں اس کی شکل نہ
ہنس ہنس کے جام جام کو چھلکا کے پی گیا
ہنس ہنس کے جام جام کو چھلکا کے پی گیا وہ خود پلا رہے تھے میں لہرا کے پی گیا توبہ کے ٹوٹنے کا بھی
زخم دل کے اگر سیے ہوتے
زخم دل کے اگر سیے ہوتے اہل دل کس طرح جیے ہوتے وہ ملے بھی تو اک جھجھک سی رہی کاش تھوڑی سی ہم پیے
وہ باتیں تری وہ فسانے ترے
وہ باتیں تری وہ فسانے ترے شگفتہ شگفتہ بہانے ترے بس اک داغ سجدہ مری کائنات جبینیں تری آستانے ترے مظالم ترے عافیت آفریں مراسم
گوریوں کالیوں نے مار دیا
گوریوں کالیوں نے مار دیا جامنوں والیوں نے مار دیا انگ ہیں یا رکابیاں دھن کی موہنی تھالیوں نے مار دیا گنگناتے حسین کانوں کی
آج پھر روح میں اک برق سی لہراتی ہے
آج پھر روح میں اک برق سی لہراتی ہے دل کی گہرائی سے رونے کی صدا آتی ہے یوں چٹکتی ہیں خرابات میں جیسے کلیاں
گرتے ہیں لوگ گرمئ بازار دیکھ کر
گرتے ہیں لوگ گرمئ بازار دیکھ کر سرکار دیکھ کر مری سرکار دیکھ کر آوارگی کا شوق بھڑکتا ہے اور بھی تیری گلی کا سایۂ
ہم نے حسرتوں کے داغ آنسوؤں سے دھو لیے
ہم نے حسرتوں کے داغ آنسوؤں سے دھو لیے آپ کی خوشی حضور بولئے نہ بولئے کیا حسین خار تھے جو مری نگاہ نے سادگی
کھلی وہ زلف تو پہلی حسین رات ہوئی
کھلی وہ زلف تو پہلی حسین رات ہوئی اٹھی وہ آنکھ تو تخلیق کائنات ہوئی خدا نے گڑھ تو دیا عالم وجود مگر سجاوٹوں کی
توبہ کا تکلف کون کرے حالات کی نیت ٹھیک نہیں
توبہ کا تکلف کون کرے حالات کی نیت ٹھیک نہیں رحمت کا ارادہ بگڑا ہے برسات کی نیت ٹھیک نہیں اے شمع بچانا دامن کو
ستاروں کے آگے جو آبادیاں ہیں
ستاروں کے آگے جو آبادیاں ہیں تری زلف کی گم شدہ وادیاں ہیں زمانہ بھی کیا رونقوں کی جگہ ہے کہیں رونا دھونا کہیں شادیاں
Sher
تھوڑی سی عقل لائے تھے ہم بھی مگر عدمؔ
تھوڑی سی عقل لائے تھے ہم بھی مگر عدمؔ دنیا کے حادثات نے دیوانہ کر دیا عبد الحمید عدم
ذرا اک تبسم کی تکلیف کرنا
ذرا اک تبسم کی تکلیف کرنا کہ گلزار میں پھول مرجھا رہے ہیں عبد الحمید عدم
جب ترے نین مسکراتے ہیں
جب ترے نین مسکراتے ہیں زیست کے رنج بھول جاتے ہیں عبد الحمید عدم
شاید مجھے نکال کے پچھتا رہے ہوں آپ
شاید مجھے نکال کے پچھتا رہے ہوں آپ محفل میں اس خیال سے پھر آ گیا ہوں میں عبد الحمید عدم
صرف اک قدم اٹھا تھا غلط راہ شوق میں
صرف اک قدم اٹھا تھا غلط راہ شوق میں منزل تمام عمر مجھے ڈھونڈھتی رہی عبد الحمید عدم
وہ ملے بھی تو اک جھجھک سی رہی
وہ ملے بھی تو اک جھجھک سی رہی کاش تھوڑی سی ہم پئے ہوتے عبد الحمید عدم
لوگ کہتے ہیں کہ تم سے ہی محبت ہے مجھے
لوگ کہتے ہیں کہ تم سے ہی محبت ہے مجھے تم جو کہتے ہو کہ وحشت ہے تو وحشت ہوگی عبد الحمید عدم
میں عمر بھر جواب نہیں دے سکا عدمؔ
میں عمر بھر جواب نہیں دے سکا عدمؔ وہ اک نظر میں اتنے سوالات کر گئے عبد الحمید عدم
شکن نہ ڈال جبیں پر شراب دیتے ہوئے
شکن نہ ڈال جبیں پر شراب دیتے ہوئے یہ مسکراتی ہوئی چیز مسکرا کے پلا عبد الحمید عدم
کون انگڑائی لے رہا ہے عدمؔ
کون انگڑائی لے رہا ہے عدمؔ دو جہاں لڑکھڑائے جاتے ہیں عبد الحمید عدم
چھوڑا نہیں خودی کو دوڑے خدا کے پیچھے
چھوڑا نہیں خودی کو دوڑے خدا کے پیچھے آساں کو چھوڑ بندے مشکل کو ڈھونڈتے ہیں عبد الحمید عدم
اجازت ہو تو میں تصدیق کر لوں تیری زلفوں سے
اجازت ہو تو میں تصدیق کر لوں تیری زلفوں سے سنا ہے زندگی اک خوبصورت دام ہے ساقی عبد الحمید عدم
Qita
تمہارے حسن کو میری نظر لگی ہے ضرور
تمہارے حسن کو میری نظر لگی ہے ضرور کہاں ہو پہلے سے تبدیل ہو گئے ہو تم خدا کرے مری آنکھوں سے نور چھن جائے
حشر تک بھی اگر صدائیں دیں
حشر تک بھی اگر صدائیں دیں بیت کر وقت پھر نہیں مڑتے سوچ کر توڑنا انہیں ساقی ٹوٹ کر جام پھر نہیں جڑتے عبد الحمید
گلستانوں میں گھوم لیتا ہوں
گلستانوں میں گھوم لیتا ہوں بادہ خانوں میں جھوم لیتا ہوں زندگی جس جگہ بھی مل جائے اس کے قدموں کو چوم لیتا ہوں عبد
زیست دامن چھڑائے جاتی ہے
زیست دامن چھڑائے جاتی ہے موت آنکھیں چرائے جاتی ہے تھک کے بیٹھا ہوں اک دوراہے پر دوپہر سر پہ آئے جاتی ہے عبد الحمید
ساحل پہ اک تھکے ہوئے جوگی کی بنسری
ساحل پہ اک تھکے ہوئے جوگی کی بنسری تلقین کر رہی ہے کنارہ ہے زندگی طوفان میں سفینۂ ہستی کو چھوڑ کر ملاح گا رہا
ایک ریزہ ترے تبسم کا
ایک ریزہ ترے تبسم کا اڑ گیا تھا شراب خانے سے حوض کوثر بنا دیا جس کو واعظوں نے کسی بہانے سے عبد الحمید عدم
اور ارمان اک نکل جاتا
اور ارمان اک نکل جاتا اک کلی ہنس کے اور کھل جاتی کاش اس تنگ دل زمانے سے اک حسیں شام اور مل جاتی عبد
زندگی اک فریب پیہم ہے
زندگی اک فریب پیہم ہے مسکرا کر فریب کھاتا جا روشنی قرض لے کے ساقی سے سرد راتوں کو جگمگاتا جا عبد الحمید عدم
اے گداگر خدا کا نام نہ لے
اے گداگر خدا کا نام نہ لے اس سے انساں کا دل نہیں ہلتا یہ ہے وہ نام جس کی برکت سے اکثر اوقات کچھ
اک شکستہ سے مقبرے کے قریب
اک شکستہ سے مقبرے کے قریب اک حسیں جوئبار بہتی ہے موت کتنی مداخلت بھی کرے زندگی بے قرار رہتی ہے عبد الحمید عدم
زندگی کی دراز پلکوں پر
زندگی کی دراز پلکوں پر راستے کا غبار چھایا ہے آب کوثر سے آنکھ کو دھو لے میکدہ پھر قریب آیا ہے عبد الحمید عدم
جام اٹھا اور فضا کو رقصاں کر
جام اٹھا اور فضا کو رقصاں کر خودبخود کوئی رت نہیں پھرتی وقت کی تنگ دل صراحی سے مے کی اک بوند بھی نہیں گرتی