Adil Mansuri
- 18 May 1936-6 November 2008
- Ahmedabad, Gujarat, British India
Introduction
“Poetry is when an emotion has found its thought and the thought founds words”. He is an Urdu poet. His poetry is famous among poetry lovers. A vast collection of his poetry is available here. Read on his poetry to explore a whole new world.
Ghazal
یہ پھیلتی شکستگی احساس کی طرف
یہ پھیلتی شکستگی احساس کی طرف دریا رواں دواں ہیں مری پیاس کی طرف اس کا بدن جھکا ہوا پتھر کی بنچ پر اپنے قدم
ہاتھ میں آفتاب پگھلا کر
ہاتھ میں آفتاب پگھلا کر رات بھر روشنی سے کھیلا کر یوں کھلے سر نہ گھر سے نکلا کر دیکھ بوڑھوں کی بات مانا کر
چہرے پہ چمچاتی ہوئی دھوپ مر گئی
چہرے پہ چمچاتی ہوئی دھوپ مر گئی سورج کو ڈھلتا دیکھ کے پھر شام ڈر گئی مبہوت سے کھڑے رہے سب بس کی لائن میں
نہ کوئی روک سکا خواب کے سفیروں کو
نہ کوئی روک سکا خواب کے سفیروں کو اداس کر گئے نیندوں کے راہگیروں کو وہ موج بن کے اٹھی یاد کے سمندر سے تباہ
جو چیز تھی کمرے میں وہ بے ربط پڑی تھی
جو چیز تھی کمرے میں وہ بے ربط پڑی تھی تنہائیٔ شب بند قبا کھول رہی تھی آواز کی دیوار بھی چپ چاپ کھڑی تھی
دور افق کے پار سے آواز کے پروردگار
دور افق کے پار سے آواز کے پروردگار صدیوں سوئی خامشی کو سامنے آ کر پکار جانے کن ہاتھوں نے کھیلا رات ساحل پر شکار
وہ گھر چھوڑ کر جا رہا ہے سنو
وہ گھر چھوڑ کر جا رہا ہے سنو خدا کے لیے کوئی تو روک لو کھلے سر پریشان سڑکوں پہ وہ کسے ڈھونڈھتا ہے ذرا
جیتا ہے صرف تیرے لیے کون مر کے دیکھ
جیتا ہے صرف تیرے لیے کون مر کے دیکھ اک روز میری جان یہ حرکت بھی کر کے دیکھ منزل یہیں ہے آم کے پیڑوں
ابلاغ کے بدن میں تجسس کا سلسلہ
ابلاغ کے بدن میں تجسس کا سلسلہ ٹوٹا ہے چشم خواب میں حیرت کا آئنہ جو آسمان بن کے مسلط سروں پہ تھا کس نے
چاروں طرف سے موت نے گھیرا ہے زیست کو
چاروں طرف سے موت نے گھیرا ہے زیست کو اور اس کے ساتھ حکم کہ اب زندگی کرو باہر گلی میں شور ہے برسات کا
آدھوں کی طرف سے کبھی پونوں کی طرف سے
آدھوں کی طرف سے کبھی پونوں کی طرف سے آوازے کسے جاتے ہیں بونوں کی طرف سے حیرت سے سبھی خاک زدہ دیکھ رہے ہیں
حج کا سفر ہے اس میں کوئی ساتھ بھی تو ہو
حج کا سفر ہے اس میں کوئی ساتھ بھی تو ہو پردہ نشیں سے اپنی ملاقات بھی تو ہو کب سے ٹہل رہے ہیں گریبان
Nazm
نظم
تبوک آواز دے رہا ہے زمیں سے اب جو چپک رہے گا منافقوں میں شمار ہوگا لہو کے سورج کی لال آنکھیں اداس لمحوں کو
ساتویں پسلی میں پیلی چاندنی
ساتویں پسلی میں پیلی چاندنی اور تاروں کی اداسی کا جمود تین دن کی بھوک کا انجام کالی مسکراہٹ نرم بھینی گھاس پر پھیلی ہوئی
شکستہ سورج
شکستہ سورج کے سارے ٹکڑوں کو کچے دھاگے سے باندھتا ہوں رگوں میں پٹرول پھیلتا ہے تو خالی جیبوں سے چاند تارے نکالتا ہوں افق
ایک منظر
پل کے اس سرے سے آتی ہوئی انگشت چہرے والی بد صورت عورت کے لٹکے ہوئے پستانوں پر بھنبھناتی مکھیوں کی مری ہوئی آنکھوں میں
چاند کے پیٹ میں حمل مچھلی
چاند کے پیٹ میں حمل مچھلی مچھلی کے منہ میں کل وجود و عدم منہ سے دم تک غبار نقش قدم نقش کے ہاتھ پاؤں
درد تنہائی کی پسلی سے نکل کر آیا
درد تنہائی کی پسلی سے نکل کر آیا رات کا ہاتھ لگا اور ہوا ٹوٹ گئی سورجی آگ میں جھلسا گیا سایا سایا روح کی
شعور نیلی رطوبتوں میں الجھ گیا ہے
شعور نیلی رطوبتوں میں الجھ گیا ہے خلوص کی انگلیوں کے نیچے اندھیرا لفظوں میں ڈھل گیا ہے یہاں سب الفاظ کھوکھلے ہیں یہ کھوکھلا
وقت کی ریت پہ
وقت کی ریت پہ سورج نے لہو تھوکا پھر ساعتیں کوڑا کے داغوں میں نہا کر نکلیں مچھلیاں لمس کے ہاتھوں میں گھڑی بھر نہ
لفظ کی چھاؤں میں
لفظ کی چھاؤں میں نیم کی پتیوں کا سفر تلخ سا سیلنی جسم میں روح بے چین بھی شہریت کے تقاضے جو ٹوٹے کبھی زندگی
کیچڑ میں اٹا موسم
پتھروں پر جمی ہوئی نظریں گاڑھا سیال لمحہ لمحہ رواں پھیلتی بو فضا میں، ناک سڑاندھ آسماں سے برس رہے مینڈک گرتے ہیں گر کے
تنگ تاریک گلی میں کتا
تنگ تاریک گلی میں کتا میلا میلا سا تھرتھراتا چاند بھینی خاموشی کسمساتی ہوئی تنگ تاریک گلی اور سائے کو نوچتا کتا عادل منصوری
وزن دار تکون
دو کالے تکون کالے وزن دار تکون دائرہ ایک بڑا سا نیلا دائرہ نیلا گھومتا دائرہ گھومتا دائرہ گیلا نیلا ٹوٹتی قوس قزح قوس قزح
Sher
نشہ سا ڈولتا ہے ترے انگ انگ پر جیسے ابھی بھگو کے نکالا ہو جام سے عادل منصوری
کس طرح جمع کیجئے اب اپنے آپ کو کاغذ بکھر رہے ہیں پرانی کتاب کے عادل منصوری
آواز کی دیوار بھی چپ چاپ کھڑی تھی کھڑکی سے جو دیکھا تو گلی اونگھ رہی تھی عادل منصوری
وہ کون تھا جو دن کے اجالے میں کھو گیا یہ چاند کس کو ڈھونڈنے نکلا ہے شام سے عادل منصوری
گرتے رہے نجوم اندھیرے کی زلف سے شب بھر رہیں خموشیاں سایوں سے ہمکنار عادل منصوری
وہ جان نو بہار جدھر سے گزر گیا پیڑوں نے پھول پتوں سے رستہ چھپا لیا عادل منصوری
جسم کی مٹی نہ لے جائے بہا کر ساتھ میں دل کی گہرائی میں گرتا خواہشوں کا آبشار عادل منصوری
دروازہ کھٹکھٹا کے ستارے چلے گئے خوابوں کی شال اوڑھ کے میں اونگھتا رہا عادل منصوری
پھولوں کی سیج پر ذرا آرام کیا کیا اس گلبدن پہ نقش اٹھ آئے گلاب کے عادل منصوری
کب سے ٹہل رہے ہیں گریبان کھول کر خالی گھٹا کو کیا کریں برسات بھی تو ہو عادل منصوری
نیند بھی جاگتی رہی پورے ہوئے نہ خواب بھی صبح ہوئی زمین پر رات ڈھلی مزار میں عادل منصوری
میرے ٹوٹے حوصلے کے پر نکلتے دیکھ کر اس نے دیواروں کو اپنی اور اونچا کر دیا عادل منصوری