Aftab Iqbal Shamim
- 16 February 1933
- Jhelum, Pakistan
Introduction
“Poetry is when an emotion has found its thought and the thought founds words”. He is an Urdu poet. His poetry is famous among poetry lovers. A vast collection of his poetry is available here. Read on his poetry to explore a whole new world.
Ghazal
مثال سیل بلا نہ ٹھہرے ہوا نہ ٹھہرے
مثال سیل بلا نہ ٹھہرے ہوا نہ ٹھہرے لگائے جائیں ہزار پہرے ہوا نہ ٹھہرے کہیں کہیں دھوپ چھپ چھپا کر اتر ہی آئی دبیز
ہانپتی ندی میں دم ٹوٹا ہوا تھا لہر کا
ہانپتی ندی میں دم ٹوٹا ہوا تھا لہر کا واقعہ ہے یہ ستمبر کی کسی سہ پہر کا سرسراہٹ رینگتے لمحے کی سرکنڈوں میں تھی
پھر بپا شہر میں افراتفری کر جائے
پھر بپا شہر میں افراتفری کر جائے کوئی یہ سوکھی ہوئی ڈار ہری کر جائے جب بھی اقرار کی کچھ روشنیاں جمع کروں میری تردید
رزق کا جب ناداروں پر دروازہ بند ہوا
رزق کا جب ناداروں پر دروازہ بند ہوا بستی کے گوشے گوشے سے شور بلند ہوا مطلعٔ بے انوار سے پھوٹا شوخ تبسم کرنوں کا
کہیں سوتا نہ رہ جاؤں صدا دے کر جگاؤ نا
کہیں سوتا نہ رہ جاؤں صدا دے کر جگاؤ نا مجھے ان آٹھ پہروں سے کبھی باہر بلاؤ نا کھلی آنکھوں سے کب تک جستجو
کبھی خود کو درد شناس کرو کبھی آؤ نا
کبھی خود کو درد شناس کرو کبھی آؤ نا مجھے اتنا تو نہ اداس کرو کبھی آؤ نا مری عمر سرائے مہکے ہے گل ہجراں
میں اپنے واسطے رستہ نیا نکالتا ہوں
میں اپنے واسطے رستہ نیا نکالتا ہوں دلیل شعر میں تھوڑا سا کشف ڈالتا ہوں بہت ستایا ہوا ہوں لئیم دنیا کا سخی ہوں دل
یہ جو ٹھہرا ہوا منظر ہے بدلتا ہی نہیں
یہ جو ٹھہرا ہوا منظر ہے بدلتا ہی نہیں واقعہ پردۂ ساعت سے نکلتا ہی نہیں آگ سے تیز کوئی چیز کہاں سے لاؤں موم
ہزیمتیں جو فنا کر گئیں غرور مرا
ہزیمتیں جو فنا کر گئیں غرور مرا انہی کے دم سے منور ہوا شعور مرا میں حیرتی کسی منصور کی تلاش میں ہوں کرے جو
ویسے تو بہت دھویا گیا گھر کا اندھیرا
ویسے تو بہت دھویا گیا گھر کا اندھیرا نکلا نہیں دیوار کے اندر کا اندھیرا کچھ روشنی طبع ضروری ہے وگرنہ ہاتھوں میں اتر آتا
وہ اپنے جزو میں کھویا گیا ہے اس حد تک
وہ اپنے جزو میں کھویا گیا ہے اس حد تک کہ اس کی فہم سے باہر ہے کل کی ابجد تک کھڑی ہیں روشنیاں دست
تمیز پسر زمین و ابن فلک نہ کرنا
تمیز پسر زمین و ابن فلک نہ کرنا تم آدمی ہو تو آدمی کی ہتک نہ کرنا یہ جمع و تفریق ضرب و تقسیم کی
Nazm
Sher
لفظوں میں خالی جگہیں بھر لینے سے بات ادھوری، پوری تو ہو جاتی ہے آفتاب اقبال شمیم
دل اور دنیا دونوں کو خوش رکھنے میں اپنے آپ سے دوری تو ہو جاتی ہے آفتاب اقبال شمیم
کہا تھا کس نے کہ شاخ نحیف سے پھوٹیں گناہ ہم سے ہوا بے گناہیوں جیسا آفتاب اقبال شمیم
یہ ہجرتیں ہیں زمین و زماں سے آگے کی جو جا چکا ہے اسے لوٹ کر نہیں آنا آفتاب اقبال شمیم
خواب کے آگے شکست خواب کا تھا سامنا یہ سفر تھا مرحلہ در مرحلہ ٹوٹا ہوا آفتاب اقبال شمیم
پھر سے تالیف دل ہو پھر کوئی اس صحیفے کی رونمائی کرے آفتاب اقبال شمیم
عشق میں یہ مجبوری تو ہو جاتی ہے دنیا غیر ضروری تو ہو جاتی ہے آفتاب اقبال شمیم
کیا رات کے آشوب میں وہ خود سے لڑا تھا آئینے کے چہرے پہ خراشیں سی پڑی ہیں آفتاب اقبال شمیم
لمحہ منصف بھی ہے مجرم بھی ہے مجبوری کا فائدہ شک کا مجھے دے کے بری کر جائے آفتاب اقبال شمیم