Akbar Allahabadi
- 16 November 1846 – 9 September 1921
- Bara, India
Introduction
Ghazal
پھر گئی آپ کی دُو دِن میں طبیعت کیسی
پھر گئی آپ کی دُو دِن میں طبیعت کیسی یہ وفا کیسی تھی صاحب ، یہ مروت کیسی دوست احباب سے ہنس بول کہ کٹ
تیری زلفوں میں دِل الجھا ہوا ہے
تیری زلفوں میں دِل الجھا ہوا ہے بلا کہ پیچ میں آیا ہوا ہے نہ کیوں کر بوئے خوں نامے سے آئے اِسی جلاد کا
اپنی گرہ سے کچھ نہ مُجھے آپ دیجئے
اپنی گرہ سے کچھ نہ مُجھے آپ دیجئے اخبار میں تُو نام میرا چھاپ دیجئے دیکھو جسے وُہ پانیر آفس میں ہے ڈٹا بہر خُدا
رنگ شراب سے میری نیت بدل گئی
رنگ شراب سے میری نیت بدل گئی واعظ کی بات رہ گئی ساقی کی چل گئی تیار تھے نماز پہ ہم سن کہ ذکر حور
آج آرائش گیسوئے دوتا ہوتی ہے
آج آرائش گیسوئے دوتا ہوتی ہے پھر میری جان گرفتار بلا ہوتی ہے شوق پابوسیٔ جاناں مُجھے باقی ہے ہنوز گھاس جُو اگتی ہے تربت
کہاں وُہ اب لطف باہمی ہے محبتوں میں بہت کمی ہے
کہاں وُہ اب لطف باہمی ہے محبتوں میں بہت کمی ہے چلی ہے کیسی ہوا الٰہی کے ہر طبیعت میں برہمی ہے میری وفا میں
عشق بت میں کفر کا مُجھ کو ادب کرنا پڑا
عشق بت میں کفر کا مُجھ کو ادب کرنا پڑا جُو برہمن نے کہا آخر وُہ سب کرنا پڑا صبر کرنا فرقت محبوب میں سمجھے
نہ حاصل ہوا صبر و آرام دِل کا
نہ حاصل ہوا صبر و آرام دِل کا نہ نکلا کبھی تُم سے کچھ کام دِل کا مُحبت کا نشہ رہے کیوں نہ ہر دم
بے تکلف بوسۂ زلف چلی پا لیجئے
بے تکلف بوسۂ زلف چلی پا لیجئے نقد دِل موجود ہے پھر کیوں نہ سودا لیجئے دِل تُو پہلے لے چکے اب جان کہ خواہاں
طریق عشق میں مُجھ کو کوئی کامل نہیں ملتا
طریق عشق میں مُجھ کو کوئی کامل نہیں ملتا گئے فرہاد و مجنُوں اب کسی سے دِل نہیں ملتا بھری ہے انجمن لیکن کسی سے
دِل مایوس میں وُہ شورشیں برپا نہیں ہوتیں
دِل مایوس میں وُہ شورشیں برپا نہیں ہوتیں امیدیں اِس قدر ٹوٹیں کے اب پیدا نہیں ہوتیں میری بیتابیاں بھی جزو ہیں اِک مری ہستی
جُو تمہارے لب جاں بخش کا شیدا ہوگا
جُو تمہارے لب جاں بخش کا شیدا ہوگا اٹھ بھی جائے گا جہاں سے تُو مسیحا ہوگا وُہ تُو موسیٰ ہوا جُو طالب دیدار ہوا
Nazm
Sher
محبت کا تم سے اثر کیا کہوں
مُحبت کا تم سے اثر کیا کہوں .نظر مِل گئی دِل دھڑکنے لگا اکبر الہ آبادی
دھمکا کہ بوسے لوں گا رخ رشک ماہ کا
دھمکا کہ بوسے لوں گا رخ رشک ماہ کا .چندا وصول ہوتا ہے صاحب دباؤ سے اکبر الہ آبادی
کوٹ اور پتلون جب پہنا تو مسٹر بن گیا
کوٹ اُور پتلون جب پہنا تُو مسٹر بن گیا .جب کوئی تقریر کی جلسے میں لیڈر بن گیا اکبر الہ آبادی
قوم کہ غم میں ڈنر کھاتے ہیں حکام کہ ساتھ
قوم کہ غم میں ڈنر کھاتے ہیں حکام کہ ساتھ .رنج لیڈر کو بہت ہے مگر آرام کہ ساتھ اکبر الہ آبادی
عشوہ بھی ہے شوخی بھی تبسم بھی حیا بھی
عشوہ بھی ہے شُوخی بھی تبسم بھی حیا بھی .ظالم میں اُور اِک بات ہے اس سب کہ سوا بھی اکبر الہ آبادی
جب غم ہوا چڑھا لیں دو بوتلیں اکٹھی
جب غم ہوا چڑھا لیں دُو بوتلیں اکٹھی .ملا کی دوڑ مسجد اکبرؔ کی دوڑ بھٹی اکبر الہ آبادی
خدا سے مانگ جو کچھ مانگنا ہے اے اکبرؔ
خُدا سے مانگ جُو کچھ مانگنا ہے اے اکبرؔ .یہی وُہ در ہے کے ذلت نہیں سوال کہ بعد اکبر الہ آبادی
غضب ہے وہ ضدی بڑے ہو گئے
غضب ہے وُہ ضدی بڑے ہو گئے .میں لیٹا تُو اُٹھ کہ کھڑے ہو گئے اکبر الہ آبادی
وصل ہو یا فراق ہو اکبرؔ
وصَل ہو یا فراق ہو اکبرؔ .جاگنا رات بھر مصیبت ہے اکبر الہ آبادی
حقیقی اور مجازی شاعری میں فرق یہ پایا
حقیقی اُور مجازی شاعری میں فرق یہ پایا .کے وُہ جامے سے باہر ہے یہ پاجامے سے باہر ہے اکبر الہ آبادی
جو وقت ختنہ میں چیخا تو نائی نے کہا ہنس کر
جُو وقت ختنہ میں چیخا تُو نائی نے کہا ہنس کر .مسلمانی میں طاقت خون ہی بہنے سے آتی ہے اکبر الہ آبادی
بتاؤں آپ کو مرنے کہ بعد کیا ہوگا
بتاؤں آپ کو مرنے کہ بعد کیا ہوگا .پلاؤ کھائیں گے احباب فاتحہ ہوگا اکبر الہ آبادی
Rubai
پابند اگرچہ اپنی خواہش کے رہو
پابند اگرچہ اپنی خواہش کے رہو لائل سبجیکٹ تم برٹش کے رہو قانون سے فائدہ اٹھانا ہے اگر حامی نہ کسی خراب سازش کے رہو
علم و حکمت میں ہو اگر خواہش فیم
علم و حکمت میں ہو اگر خواہش فیم سرکار کی نوکری کو ہرگز نہ کر ایم شادی نہ کر اپنی قبل تحصیل علوم بت ہو
دولت بھی ہے فلسفہ بھی ہے جاہ بھی ہے
دولت بھی ہے فلسفہ بھی ہے جاہ بھی ہے لطف حسن بتان دل خواہ بھی ہے سب سے قطع نظر ہے مشکل لیکن اتنا سمجھ
طاقت وہ ہے با اثر جو سلطانی ہے
طاقت وہ ہے با اثر جو سلطانی ہے اس جا ہے چمک جہاں زر افشانی ہے تعلیم وہ خوب ہے جو سکھلائے ہنر اچھی ہے
اس قوم کو یک دلی کی رغبت ہی نہیں
اس قوم کو یک دلی کی رغبت ہی نہیں جو ایک کرے ادھر طبیعت ہی نہیں اکبر کہتا ہے میل رکھو باہم وہ کہتے ہیں
جو حسرت دل ہے وہ نکلنے کی نہیں
جو حسرت دل ہے وہ نکلنے کی نہیں جو بات ہے کام کی وہ چلنے کی نہیں یہ بھی ہے بہت کہ دل سنبھالے رہئے
بھائے جو نگاہ کو وہی رنگ اچھا
بھائے جو نگاہ کو وہی رنگ اچھا لائے جو راہ پر وہی ڈھنگ اچھا قرآن و نماز سے اگر دل نہ ہو گرم ہنگامۂ رقص
الفت نہ ہو شیخ کی تو عزت ہی سہی
الفت نہ ہو شیخ کی تو عزت ہی سہی مرشد نہ بناؤ ان کو دعوت ہی سہی بگڑا ہے جو دل زباں ہی کو روکو
ہمدرد ہوں سب یہ لطف آبادی ہے
ہمدرد ہوں سب یہ لطف آبادی ہے ہمسایہ بھی ہو شریک تب شادی ہے تسکین ہے جبکہ ہو خدا پر تکیہ قانون بنا سکیں تب
اب تک جو کہیں ہماری قسمت نہ لڑی
اب تک جو کہیں ہماری قسمت نہ لڑی ناحق تجھے ہم نشیں ہے فکر اس کی پڑی انگریز کے ملک میں لڑائی کیسی یہ ہند
افسوس ان پر فلک نے پایا قابو
افسوس ان پر فلک نے پایا قابو مطلق نہیں ان میں رنگ ڈھونڈو یا بو شیخی کو چھوڑ میرزا پہلے بنے بنتے جاتے ہیں اب
تدبیر کریں تو اس میں ناکامی ہو
تدبیر کریں تو اس میں ناکامی ہو تقدیر کا نام لیں تو بد نامی ہو القصہ عجیب ضیق میں ہیں ہندی یورپ کا خدا کہاں
Humour/Satire
Qita
واہ رے سید پاکیزہ گہر کیا کہنا
واہ رے سید پاکیزہ گہر کیا کہنا یہ دماغ اور حکیمانہ نظر کیا کہنا قوم کے عشق میں پر سوز جگر کیا کہنا ایک ہی
ہر خاک کے پتلے کو ابھارا ہے فلک نے
ہر خاک کے پتلے کو ابھارا ہے فلک نے یکتائی کے اظہار میں مست اہل زمیں ہیں ہر اک کو یہ دعویٰ ہے کہ ہم
خانہ جنگی ہی میں حضرت مرد ہیں
خانہ جنگی ہی میں حضرت مرد ہیں عیب جوئی کے ہنر میں فرد ہیں اپنوں ہی کے واسطے ہیں شعلہ خو سامنے غیروں کے بالکل
فنا کے سامنے ہم کیا ہماری ہستی کیا
فنا کے سامنے ہم کیا ہماری ہستی کیا برائے نام مگر اک نشان پا ہی لیا ہوا جو ہم نفس قطرہ بن گئی دم بھر
جو پوچھا مجھ سے دور چرخ نے کیا تو مسلماں ہے
جو پوچھا مجھ سے دور چرخ نے کیا تو مسلماں ہے میں گھبرایا کہ اس دریافت میں کیا رمز پنہاں ہے کروں اقرار تو شاید
کچھ سمجھ میں نہیں آتا یہ طلسم ہستی
کچھ سمجھ میں نہیں آتا یہ طلسم ہستی اس کی قدرت کے کرشمے بھی عجب ہوتے ہیں جان جب خاک میں پڑتی ہے تو ہوتی
بس اتنی بات ہے سامع میں ہو مذاق سخن
بس اتنی بات ہے سامع میں ہو مذاق سخن مجال کیا کہ مرے شعر پر اچھل نہ پڑے اب اپنے وعظ میں دنیا سے دل
سامان عیش کچھ نہ رہا اڑ رہی ہے خاک
سامان عیش کچھ نہ رہا اڑ رہی ہے خاک اس غم میں اپنی جان مگر کیوں کروں ہلاک میں نے تو جل کے کہہ دیا
اکبر کی خرافات سے نا خوش ہوئے ایسے
اکبر کی خرافات سے نا خوش ہوئے ایسے نامہ ہے نہ پیغام نہ غصہ ہے نہ نخرا مانا کہ حسینوں کے لئے ناز ہے لازم