Ameer Meenai
- 1829 — 13 October 1900
- Lucknow, India
Introduction
Ghazal
میں رو کہ آہ کروں گا جہاں رہے نہ رہے
میں رو کہ آہ کروں گا جہاں رہے نہ رہے زمیں رہے نہ رہے آسماں رہے نہ رہے رہے وُہ جان جہاں یہ جہاں رہے
وعدۂ وصل اُور وہ کچھ بات ہے
وعدۂ وصل اُور وہ کچھ بات ہے ہو نہ ہو اِس میں بھی کوئی گھات ہے خلق ناحق درپئے اثبات ہے ہے دہن اِس کا
قبلۂ دُل کعبۂ جاں اُور ہے
قبلۂ دُل کعبۂ جاں اُور ہے سجدہ گاہ اہل عرفاں اُور ہے ہو کہ خوش کٹواتے ہیں اپنے گلے عاشقوں کی عید قرباں اُور ہے
مُجھ مست کو مے کی بو بہت ہے
مُجھ مست کو مے کی بو بہت ہے دیوانے کو ایک ہو بہت ہے مُوتی کی طرح جُو ہو خداداد تھوڑی سی بھی آبرو بہت
پلا ساقیا ارغوانی شراب
پلا ساقیا ارغوانی شراب کے پیری میں دے نوجوانی شراب وُہ شعلہ ہے ساقی کے رنجک کی طرح اڑا دیتی ہے ناتوانی شراب کہاں بادۂ
دُل جُو سینے میں زار سا ہے کچھ
دُل جُو سینے میں زار سا ہے کچھ غم سے بے اختیار سا ہے کچھ رخت ہستی بدن پہ ٹھیک نہیں جامۂ مستعار سا ہے
ہیں نہ زندوں میں نہ مردوں میں کمر کہ عاشق
ہیں نہ زندوں میں نہ مردوں میں کمر کہ عاشق نہ ادھر کہ ہیں الٰہی نہ ادھر کے عاشق ہے وہی آنکھ جُو مشتاق ترے
شمشیر ہے، سناں ہے، کسے دوں کسے نہ دوں
شمشیر ہے، سناں ہے، کسے دوں کسے نہ دوں اِک جان ناتواں ہے کسے دوں کسے نہ دوں مہمان ادھر ہما ہے ، ادھر ہے
ہم سر زلف قد حور شمائل ٹھہرا
ہم سر زلف قد حور شمائل ٹھہرا لام کا خوب الف مد مقابل ٹھہرا دیدۂ تر سے جُو دامن میں گرا دِل ٹھہرا بہتے بہتے
کچھ خار ہی نہیں میرے دامن کہ یار ہیں
کچھ خار ہی نہیں میرے دامن کہ یار ہیں گردن میں طوق بھی تُو لڑکپن کہ یار ہیں سینہ ہو کشتگان مُحبت کا یا گلا
گلے میں ہاتھ تھے شب اِس پری سے راہیں تھیں
گلے میں ہاتھ تھے شب اِس پری سے راہیں تھیں سحر ہوئی تُو وہ آنکھیں نہ وہ نگاہیں تھیں نکل کہ چہرے پہ میدان صاف
گزر کو ہے بہت اُوقات تھوڑی
گزر کو ہے بہت اُوقات تھوڑی کے ہے یہ طول قصہ رات تھوڑی جُو مے زاہد نے مانگی مست بولے بہت یا قبلۂ حاجات تھوڑی
Naat
Sher
کون اٹھائے گا تمہاری یہ جفا میرے بعد
کون اٹھائے گا تمہاری یہ جفا میرے بعد .یاد آئے گی بہت میری وفا میرے بعد امیر مینائی
اللہ رے سادگی نہیں اتنی انہیں خبر
اللہ رے سادگی نہیں اتنی انہیں خبر .میت پہ آ کے پوچھتے ہیں ان کو کیا ہوا امیر مینائی
مانی ہیں میں نے سیکڑوں باتیں تمام عمر
مانی ہیں میں نے سیکڑوں باتیں تمام عمر .آج آپ ایک بات مری مان جائیے امیر مینائی
وہ دشمنی سے دیکھتے ہیں دیکھتے تو ہیں
وہ دشمنی سے دیکھتے ہیں دیکھتے تو ہیں .میں شاد ہوں کہ ہوں تو کسی کی نگاہ میں امیر مینائی
سرکتی جائے ہے رخ سے نقاب آہستہ آہستہ
سرکتی جائے ہے رخ سے نقاب آہستہ آہستہ .نکلتا آ رہا ہے آفتاب آہستہ آہستہ امیر مینائی
خدا نے نیک صورت دی تو سیکھو نیک باتیں بھی
خدا نے نیک صورت دی تو سیکھو نیک باتیں بھی .برے ہوتے ہو اچھے ہو کے یہ کیا بد زبانی ہے امیر مینائی
بوسہ لیا جو اس لب شیریں کا مر گئے
بوسہ لیا جو اس لب شیریں کا مر گئے .دی جان ہم نے چشمہ آب حیات پر امیر مینائی
بعد مرنے کے بھی چھوڑی نہ رفاقت میری
بعد مرنے کے بھی چھوڑی نہ رفاقت میری .میری تربت سے لگی بیٹھی ہے حسرت میری امیر مینائی
آیا نہ ایک بار عیادت کو تو مسیح
آیا نہ ایک بار عیادت کو تو مسیح .سو بار میں فریب سے بیمار ہو چکا امیر مینائی
پہلو میں میرے دل کو نہ اے درد کر تلاش
پہلو میں میرے دل کو نہ اے درد کر تلاش .مدت ہوئی غریب وطن سے نکل گیا امیر مینائی
مرا خط اس نے پڑھا پڑھ کے نامہ بر سے کہا
مرا خط اس نے پڑھا پڑھ کے نامہ بر سے کہا .یہی جواب ہے اس کا کوئی جواب نہیں امیر مینائی
ساری دنیا کے ہیں وہ میرے سوا
ساری دنیا کے ہیں وہ میرے سوا .میں نے دنیا چھوڑ دی جن کے لیے امیر مینائی