Amjad Islam Amjad
- 4 August 1944 – 10 February 2023
- Lahore, Pakistan
Introduction
Ghazal
آئینوں میں عکس نہ ہوں تُو حیرت رہتی ہے
آئینوں میں عکس نہ ہوں تُو حیرت رہتی ہے جیسے خالی آنکھوں میں بھی وحشت رہتی ہے ہر دم دنیا کہ ہنگامے گھیرے رکھتے تھے
دِل کہ دریا کو کسی روز اتر جانا ہے
دِل کہ دریا کو کسی روز اتر جانا ہے اتنا بے سمت نہ چل لوٹ کہ گھر جانا ہے اس تک آتی ہے تُو ہر
اپنے گھر کی کھڑکی سے میں آسمان کو دیکھوں گا
اپنے گھر کی کھڑکی سے میں آسمان کو دیکھوں گا جس پر ترا نام لکھا ہے ، اِس تارے کو ڈھونڈوں گا تم بھی ہر
زندگی درد بھی دوا بھی تھی
زندگی درد بھی دوا بھی تھی ہم سفر بھی گریز پا بھی تھی کچھ تُو تھے دُوست بھی وفا دُشمن کچھ میری آنکھ میں حیا
اگرچہ کوئی بھی اندھا نہیں تھا
اگرچہ کوئی بھی اندھا نہیں تھا لکھا دیوار کا پڑھتا نہیں تھا کچھ ایسی برف تھی اِس کی نظر میں گزرنے کہ لئے رستہ نہیں
ترا یہ لطف کسی زخم کا عنوان نہ ہو
ترا یہ لطف کسی زخم کا عنوان نہ ہو یہ جُو ساحِل سا نظر آتا ہے طوفان نہ ہو کیا بلا شہر پہ ٹوٹی ہے
سینکڑوں ہی رہنما ہیں راستہ کوئی نہیں
سینکڑوں ہی رہنما ہیں راستہ کوئی نہیں آئنے چاروں طرف ہیں دیکھتا کوئی نہیں سب کہ سب ہیں اپنے اپنے دائرے کی قید میں دائروں
رات میں اس کشمکش میں ایک پل سویا نہیں
رات میں اس کشمکش میں ایک پل سویا نہیں کل میں جب جانے لگا تُو اِس نے کیوں روکا نہیں یُوں اگر سوچوں تّو اِک
شام ڈھلے جب بستی والے لوٹ کہ گھر کو آتے ہیں
شام ڈھلے جب بستی والے لوٹ کہ گھر کو آتے ہیں آہٹ آہٹ دستَک دستَک کیا کیا ہم گھبراتے ہیں اہل جنُوں تُو دِل کی
کان لگا کر سنتی راتیں باتیں کرتے دِن
کان لگا کر سنتی راتیں باتیں کرتے دِن کہاں گئیں وُہ اچھی راتیں باتیں کرتے دِن ایک ہی منظر شہر پہ اپنے کب سے ٹھہرا
یہ گرد باد تمنا میں گھومتے ہوئے دِن
یہ گرد باد تمنا میں گھومتے ہوئے دِن کہاں پہ جا کہ رکیں گے یہ بھاگتے ہوئے دِن غروب ہوتے گئے رات کہ اندھیروں میں
کمال حُسن ہے حُسن کمال سے باہر
کمال حُسن ہے ، حُسن کمال سے باہر ازل کا رنگ ہے جیسے مثال سے باہر تُو پھر وُہ کُون ہے جو ماورا ہے ہر
Nazm
مُجھے اپنے جینے کا حق چاہیے
مُجھے اپنے جینے کا حق چاہیے زمیں جس پہ مرے قدم ٹک سکیں اُور تاروں بھرا کچھ فلک چاہیے مُجھے اپنے جینے کا حق چاہیے
اماں مُجھ کو بستہ دے دے
اماں مُجھ کو بستہ دے دے دنیا مُجھ کو رستہ دے دے جانا ہے اسکول مُجھے تُو جانا ہے اسکول جان سکوں کے اچھا کیا
اے وقت ذرا تھم جا
اِک خواب کی آہٹ سے یُوں گونج اٹھیں گلیاں امبر پہ کھلے تارے باغوں میں ہنسیں کلیاں ساگر کی خموشی میں اِک مّوج نے کروٹ
ایک تھا ملا نصرالدین
ایک تھا ملا نصرالدین کرتا تھا باتیں نمکین کام تھا اس کا احمق بننا سیدھی بات کو الٹا کرنا کھانے پینے کا شوقین ایک تھا
دیس دیس میں پلنے والے پیارے پیارے بچو
دیس دیس میں پلنے والے پیارے پیارے بچو آنے والا کل ہے تمہارا اب تک تُو حق دار نے پایا مشکل سے انصاف تم مت
چمکو چمکو پیارے تارو
چمکو چمکو پیارے تارو رنگوں اُور اُمیدوں والے آنکھوں میں پھر خواب اتارو چمکو چمکو پیارے تارو رات بہت ہے کالیِ کالیِ گلیاں ہیں سب
آشوب آگہی
کوئی بتلائے مُجھے مرے ان جاگتے خوابوں کا مقدر کیا ہے میں کے ہر شے کی بقا جانتا ہوں اڑتے لمحوں کا پتا جانتا ہوں
آواز کہ پتھر
کُون آئے گا شب بھر گرتے پتوں کی آوازیں مُجھ سے کہتی ہیں کُون آئے گا کِس کی آہٹ پر مٹی کہ کان لگے ہیں
دیکھو مری باربی ڈال
دیکھو مری باربی ڈال دیکھو مری باربی ڈال نیلِی نیلِی آنکھیں اس کی خوب سنہرے بال دیکھو مری باربی ڈال کپڑے اس کہ رنگ رنگیلے
ہم زاد
کچھ کیا جائے نہ سوچا جائے مڑ کہ دیکھوں تُو نہ دیکھا جائے مری تنہائی کی وحشت سے ہراساں ہو کر مرا سایہ مرے قدموں
اے ہجر زدہ شب
اے ہجر زدہ شب آ تُو ہی میرے سینے سے لگ جا کے بٹے غم احساس کو تنہائی کی منزل سے ملے رہ آواز کی
آتے جاتے دِن
آتے جاتے دِن کیا کہتے ہیں سن علم کہ چاند چراغ سے ساتھی جیون کہ اِس باغ سے ساتھی ساری کلیاں چن آتے جاتے دِن
Sher
پیڑوں کی طرح حسن کی بارش میں نہا لوں
پیڑوں کی طرح حسن کی بارش میں نہا لوں .بادل کی طرح جھوم کے گھر آؤ کسی دن امجد اسلام امجد
سنا ہے کانوں کے کچے ہو تم بہت سو ہم
سنا ہے کانوں کے کچے ہو تم بہت سو ہم .تمہارے شہر میں سب سے بنا کے رکھتے ہی امجد اسلام امجد
ترے فراق کی صدیاں ترے وصال کے پل
ترے فراق کی صدیاں ترے وصال کے پل .شمار عمر میں یہ ماہ و سال سے کچھ ہیں امجد اسلام امجد
تمہی نے کون سی اچھائی کی ہے
تمہی نے کون سی اچھائی کی ہے .چلو مانا کہ میں اچھا نہیں تھا امجد اسلام امجد
بات تو کچھ بھی نہیں تھیں لیکن اس کا ایک دم
بات تو کچھ بھی نہیں تھیں لیکن اس کا ایک دم .ہاتھ کو ہونٹوں پہ رکھ کر روکنا اچھا لگا امجد اسلام امجد
بے وفا تو وہ خیر تھا امجد
بے وفا تو وہ خیر تھا امجدؔ .لیکن اس میں کہیں وفا بھی تھی امجد اسلام امجد
مانا نظر کے سامنے ہے بے شمار دھند
مانا نظر کے سامنے ہے بے شمار دھند .ہے دیکھنا کہ دھند کے اس پار کون ہے امجد اسلام امجد
گزریں جو میرے گھر سے تو رک جائیں ستارے
گزریں جو میرے گھر سے تو رک جائیں ستارے .اس طرح مری رات کو چمکاؤ کسی دن امجد اسلام امجد
کمال حسن ہے حسن کمال سے باہر
کمال حسن ہے حسن کمال سے باہر .ازل کا رنگ ہے جیسے مثال سے باہر امجد اسلام امجد
کس قدر یادیں ابھر آئی ہیں تیرے نام سے
کس قدر یادیں ابھر آئی ہیں تیرے نام سے .ایک پتھر پھینکنے سے پڑ گئے کتنے بھنور امجد اسلام امجد
چہرے پہ مرے زلف کو پھیلاؤ کسی دن
چہرے پہ مرے زلف کو پھیلاؤ کسی دن .کیا روز گرجتے ہو برس جاؤ کسی دن امجد اسلام امجد
اس نے آہستہ سے جب پکارا مجھے
اس نے آہستہ سے جب پکارا مجھے .جھک کے تکنے لگا ہر ستارا مجھے امجد اسلام امجد