Amjad Islam Amjad
- 4 August 1944 – 10 February 2023
- Lahore, Pakistan
Introduction
Ghazal
یاد کہ صحرا میں کچھ تُو زندگی آئے نظر
یاد کہ صحرا میں کچھ تُو زندگی آئے نظر سوچتا ہوں اب بنا لوں ریت سے ہی کوئی گھر کس قدر یادیں ابھر آئی ہیں
لہو میں تیرتے پھرتے ملال سے کچھ ہیں
لہو میں تیرتے پھرتے ملال سے کچھ ہیں کبھی سُنو تُو دلوں میں سوال سے کچھ ہیں میں خُود بھی ڈوب رہا ہوں ہر اِک
نہ آسماں سے نہ دشمن کہ زور و زر سے ہوا
نہ آسماں سے نہ دشمن کہ زور و زر سے ہوا یہ معجزہ تّو میرے دست بے ہنر سے ہوا قدم اٹھا ہے تُو پاؤں
بستیوں میں اِک صدائے بے صدا رہ جائے گی
بستیوں میں اِک صدائے بے صدا رہ جائے گی بام و در پہ نقش تحریر ہوا رہ جائے گی آنسوؤں کا رزق ہوں گی بے
لہو میں رنگ لہرانے لگے ہیں
لہو میں رنگ لہرانے لگے ہیں زمانے خُود کو دہرانے لگے ہیں پروں میں لے کہ بے حاصل اڑانیں پرندے لوٹ کر آنے لگے ہیں
تُو نہیں ترا استعارا نہیں
تُو نہیں ترا استعارا نہیں آسماں پر کوئی ستارا نہیں وُہ میرے سامنے سے گزرا تھا پھر بھی میں چپ رہا پکارا نہیں وُہ نہیں
تارا تارا اتر رہی ہے رات سمندر میں
تارا تارا اتر رہی ہے رات سمندر میں جیسے ڈوبنے والوں کہ ہوں ہاتھ سمندر میں ساحِل پر تُو سب کہ ہوں گے اپنے اپنے
بند تھا دروازہ بھی اُور اگر میں بھی تنہا تھا میں
بند تھا دروازہ بھی اُور اگر میں بھی تنہا تھا میں وہم تھا جانے میرا یا آپ ہی بولا تھا میں یاد ہے اب تک
ایک آزار ہوئی جاتی ہے شہرت ہم کو
ایک آزار ہوئی جاتی ہے شہرت ہم کو خُود سے ملنے کی بھی ملتی نہیں فرصت ہم کو روشنی کا یہ مسافر ہے رہ جاں
نکل کہ حلقۂ شام و سحر سے جائیں کہیں
نکل کہ حلقۂ شام و سحر سے جائیں کہیں زمیں کہ ساتھ نہ مِل جائیں یہ خلائیں کہیں سفر کی رات ہے پچھلی کہانیاں نہ
کب سے ہم لوگ اِس بھنور میں ہیں
کب سے ہم لوگ اِس بھنور میں ہیں اپنے گھر میں ہیں یا سفر میں ہیں یُوں تُو اڑنے کو آسماں ہیں بہت ہم ہی
دشت دِل میں سراب تازہ ہیں
دشت دِل میں سراب تازہ ہیں بجھ چکی آنکھ خواب تازہ ہیں داستان شکست دِل ہے وہی ایک دُو چار باب تازہ ہیں کوئی موسم
Nazm
ایک اُور مشورہ
بستیاں ہوں ، کیسی بھی پستیاں ہوں ، جیسی بھی ہر طرح کی ظلمت کو روشنی کہا جائے خاک ڈالیں منزل پر بھول جائیں ساحِل
چشم بے خواب کو سامان بہت
چشم بے خواب کو سامان بہت رات بھر شہر کِی گلیوں میں ہوا ہاتھ میں سنگ لیے خوف سے زرد مکانوں کہ دھڑکتے دِل پر
یُوں تّو اس دنیا کی ہر اِک چیز نیاری ہے
یُوں تّو اس دنیا کی ہر اِک چیز نیاری ہے لیکن اپنے دیس کی دھرتی سب سے پیاری ہے چندا ماموں نیل گگن میں اچھے
وُہ ابھی اپنے چہرے میں اترا نہیں
کس سے پُوچھوں وُہ کیا شخص ہے جُو میری آرزو کہ جھروکوں میں ٹھہرے ہوئے سارے چہروں میں بکھرا ہوا ہے مگر خود ابھی اپنے
تجدید
اب میرے شانے سے لگ کر کس لیے روتی ہو تم یاد ہے تم نے کہا تھا جب نگاہوں میں چمک ہو لفظ جذبوں کہ
سورج کی پہلی کرن
سن اے ہوائے بے دلی ابھی تُو چشم تر میں ان کی صورتیں رواں دواں ہیں جن کہ سانس کی مہک میں جا چکی بہار
شکست انا
آج کی رات بہت سرد بہت کالی ہے تیرگی ایسے لپٹتی ہے ہوائے غم سے اپنے بچھڑے ہوئے ساجن سے ملی ہے جیسے مشعل خواب
سوال اندر سوال
سورج ڈوبا کہاں گیا وُہ سارا دِن یہ چاند کہاں تھا نیند میں ڈوبے بند آنکھوں میں خواب کدھر سے آتے ہیں باغوں میں یہ
سرمایۂ جاں
یہ سب نے دیکھا کے ساز گُل سے نکل کہ خوشبُو کا ایک جھونکا ہزار نغمے سنا گیا ہے مگر کسی کو نظر نہ آیا
خود سپردگی
رات بھیگے تُو پرانے قصے پئے ترتیب کوئی اُور سہارا ڈھونڈیں چاندنی نیند کا پھیلا ہوا جادو لے کر دِل کہ بے خواب نگر میں
ہری بھری اِک شاخ بدن پر
ہری بھری اِک شاخ بدن پر مرے لبوں کہ لمس سے پھوٹے ایسے ایسے پھول سادہ سے ملبوس میں بھی وُہ ساتوں رنگ کھلاتی ہے
سمندر آسمان اور میں
کھلیں جُو آنکھیں تُو سر پہ نیلا فلک تنا تھا چہار جانب سیاہ پانی کی تند موجوں کا غلغلہ تھا ہوائیں چیخوں کو اور کراہوں
Sher
یہ جو حاصل ہمیں ہر شے کی فراوانی ہے
یہ جو حاصل ہمیں ہر شے کی فراوانی ہے .یہ بھی تو اپنی جگہ ایک پریشانی ہے امجد اسلام امجد
سائے ڈھلنے چراغ جلنے لگے
سائے ڈھلنے چراغ جلنے لگے .لوگ اپنے گھروں کو چلنے لگے امجد اسلام امجد
پھر آج کیسے کٹے گی پہاڑ جیسی رات
پھر آج کیسے کٹے گی پہاڑ جیسی رات .گزر گیا ہے یہی بات سوچتے ہوئے دن امجد اسلام امجد
ہمیں ہماری انائیں تباہ کر دیں گی
ہمیں ہماری انائیں تباہ کر دیں گی .مکالمے کا اگر سلسلہ نہیں کرتے امجد اسلام امجد
کیا ہو جاتا ہے ان ہنستے جیتے جاگتے لوگوں کو
کیا ہو جاتا ہے ان ہنستے جیتے جاگتے لوگوں کو .بیٹھے بیٹھے کیوں یہ خود سے باتیں کرنے لگتے ہیں امجد اسلام امجد
دوریاں سمٹنے میں دیر کچھ تو لگتی ہے
دوریاں سمٹنے میں دیر کچھ تو لگتی ہے .رنجشوں کے مٹنے میں دیر کچھ تو لگتی ہے امجد اسلام امجد
ہر سمندر کا ایک ساحل ہے
ہر سمندر کا ایک ساحل ہے .ہجر کی رات کا کنارا نہیں امجد اسلام امجد
تم ہی نے پاؤں نہ رکھا وگرنہ وصل کی شب
تم ہی نے پاؤں نہ رکھا وگرنہ وصل کی شب .زمیں پہ ہم نے ستارے بچھا کے رکھے تھے امجد اسلام امجد
قدم اٹھا ہے تو پاؤں تلے زمیں ہی نہیں
قدم اٹھا ہے تو پاؤں تلے زمیں ہی نہیں .سفر کا رنج ہمیں خواہش سفر سے ہوا امجد اسلام امجد
حادثہ بھی ہونے میں وقت کچھ تو لیتا ہے
حادثہ بھی ہونے میں وقت کچھ تو لیتا ہے .بخت کے بگڑنے میں دیر کچھ تو لگتی ہے امجد اسلام امجد
اتنے خدشے نہیں ہیں رستوں میں
اتنے خدشے نہیں ہیں رستوں میں .جس قدر خواہش سفر میں ہیں امجد اسلام امجد
دام خوشبو میں گرفتار صبا ہے کب سے
دام خوشبو میں گرفتار صبا ہے کب سے .لفظ اظہار کی الجھن میں پڑا ہے کب سے امجد اسلام امجد