Amjad Islam Amjad
- 4 August 1944 – 10 February 2023
- Lahore, Pakistan
Introduction
Ghazal
زندگانی جاودانی بھی نہیں
زندگانی جاودانی بھی نہیں لیکن اِس کا کوئی ثانی بھی نہیں ہے سوا نیزے پہ سورج کا علم ترے غم کی سائبانی بھی نہیں منزلیں
جب بھی آنکھوں میں تیرے وصل کا لمحہ چمکا
جب بھی آنکھوں میں تیرے وصل کا لمحہ چمکا چشم بے آب کی دہلیز پہ دریا چمکا فصل گُل آئی کھلے باغ میں خوشبُو کہ
سوچ کہ گنبد میں ابھری ٹوٹتی یادوں کی گونج
سوچ کہ گنبد میں ابھری ٹوٹتی یادوں کی گونج مری آہٹ سن کہ جاگی سیکڑوں قدموں کی گونج آنکھ میں بکھرا ہوا ہے، جاگتے خوابوں
پردے میں اِس بدن کہ چھپیں راز کس طرح
پردے میں اِس بدن کہ چھپیں راز کس طرح خوشبُو نہ ہوگی پھول کی غماز کس طرح طرز کلام ان کا ہوا طرز خاص و
کتنی سرکش بھی ہو سرپھری یہ ہوا رکھنا روشن دیا
کتنی سرکش بھی ہو سرپھری یہ ہوا رکھنا روشن دیا رات جب تک رہے اے میرے ہم نوا رکھنا روشن دیا روشنی کا وظیفہ نہیں
پلکوں کی دہلیز پہ چمکا ایک ستارا تھا
پلکوں کی دہلیز پہ چمکا ایک ستارا تھا ساحِل کی اس بھیڑ میں جانے کون ہمارا تھا کہساروں کی گونج کی صورت پھیل گیا ہے
غبار دشت طلب میں ہیں رفتگاں کیا کیا
غبار دشت طلب میں ہیں رفتگاں کیا کیا چمک رہے ہیں اندھیرے میں استخواں کیا کیا دکھا کہ ہم کو ہمارا ہی قاش قاش بدن
دشت بے آب کی طرح گزری
دشت بے آب کی طرح گزری زندگی خواب کی طرح گزری چشم پر آب سے تیری خواہش رقص مہتاب کی طرح گزری ایک صورت کو
ہوائیں لاکھ چلیں لو سنبھلتی رہتی ہے
ہوائیں لاکھ چلیں لو سنبھلتی رہتی ہے دیے کی روح میں کیا چیز جلتی رہتی ہے کسے خبر کے یہ اِک دِن کدھر کو لے
ہوا ہی لو کو گھٹاتی وہی بڑھاتی ہے
ہوا ہی لو کو گھٹاتی وہی بڑھاتی ہے یہ کس گمان میں دنیا دیے جلاتی ہے بھٹکنے والوں کو کیا فرق اس سے پڑتا ہے
کھیل اس نے دکھا کہ جادو کہ
کھیل اس نے دکھا کہ جادو کہ مری سوچوں کہ قافلے لوٹے یا تُو دھڑکن ہی بند ہو جائے یا یہ خاموشیٔ فضا ٹوٹے تم
کبھی رقص شام بہار میں اسے دیکھتے
کبھی رقص شام بہار میں اسے دیکھتے کبھی خواہشوں کہ غبار میں اسے دیکھتے مگر ایک نجم سحر نما کہیں جاگتا تیرے ہجر کی شب
Nazm
مُجھے اپنے جینے کا حق چاہیے
مُجھے اپنے جینے کا حق چاہیے زمیں جس پہ مرے قدم ٹک سکیں اُور تاروں بھرا کچھ فلک چاہیے مُجھے اپنے جینے کا حق چاہیے
قائد اعظم
آدم کی تاریخ کہ سینے میں ڈوبے ہیں کتنے سورج کتنے چاند کیسے کیسے رنگ تھے مٹی سے پھوٹے موج ہوا کہ بنتے اُور بگڑتے
بزدل
ہجوم سنگ انا اُور ضبط پیہم نے مثال ریگ رواں بے قرار رکھا ہے میرے وجود کی وحشت نے رات بھر مُجھ کو غبار قافلۂ
Sher
بے ثمر پیڑوں کو چومیں گے صبا کے سبز لب
بے ثمر پیڑوں کو چومیں گے صبا کے سبز لب .دیکھ لینا یہ خزاں بے دست و پا رہ جائے گی امجد اسلام امجد
شبنمی آنکھوں کے جگنو کانپتے ہونٹوں کے پھول
شبنمی آنکھوں کے جگنو کانپتے ہونٹوں کے پھول .ایک لمحہ تھا جو امجدؔ آج تک گزرا نہیں امجد اسلام امجد
تیر آیا تھا جدھر یہ مرے شہر کے لوگ
تیر آیا تھا جدھر یہ مرے شہر کے لوگ .کتنے سادا ہیں کہ مرہم بھی وہیں دیکھتے ہیں امجد اسلام امجد
سائے لرزتے رہتے ہیں شہروں کی گلیوں میں
سائے لرزتے رہتے ہیں شہروں کی گلیوں میں .رہتے تھے انسان جہاں اب دہشت رہتی ہے امجد اسلام امجد
کن فکاں کے بھید سے مولی مجھے آگاہ کر
کن فکاں کے بھید سے مولی مجھے آگاہ کر .کون ہوں میں گر یہاں پر دوسرا کوئی نہیں امجد اسلام امجد
ہو چمن کے پھولوں کا یا کسی پری وش کا
ہو چمن کے پھولوں کا یا کسی پری وش کا .حسن کے سنورنے میں دیر کچھ تو لگتی ہے امجد اسلام امجد
فضا میں تیرتے رہتے ہیں نقش سے کیا کیا
فضا میں تیرتے رہتے ہیں نقش سے کیا کیا .مجھے تلاش نہ کرتی ہوں یہ بلائیں کہیں امجد اسلام امجد
یوں تو ہر رات چمکتے ہیں ستارے لیکن
یوں تو ہر رات چمکتے ہیں ستارے لیکن .وصل کی رات بہت صبح کا تارا چمکا امجد اسلام امجد
آنکھ بھی اپنی سراب آلود ہے
آنکھ بھی اپنی سراب آلود ہے .اور اس دریا میں پانی بھی نہیں امجد اسلام امجد
نہ اس کا انت ہے کوئی نہ استعارہ ہے
نہ اس کا انت ہے کوئی نہ استعارہ ہے .یہ داستان ہے ہجر و وصال سے باہر امجد اسلام امجد
یہ جو سائے سے بھٹکتے ہیں ہمارے ارد گرد
یہ جو سائے سے بھٹکتے ہیں ہمارے ارد گرد .چھو کے ان کو دیکھیے تو واہمہ کوئی نہیں امجد اسلام امجد
لرزش نگہ میں لہجے میں لکنت عجیب تھی
لرزش نگہ میں لہجے میں لکنت عجیب تھی .اس اولیں وصال کی وحشت عجیب تھی امجد اسلام امجد