Asghar Gondvi
- 1884-1936
- Gorakhpur, North-Western Provinces, British India
Introduction
منشی تفضل حسین، ان کے والد مستقل طور پر ملازمت کے لئے گونڈہ منتقل ہوگئے. ان کے والد منشی تفضل حسین نے “پولیس افسر” کی حیثیت سے خدمات انجام دیں. انہوں نے اپنی ابتدائی تعلیم گھر سے ہی حاصل کی. انہوں نے کوئی روایتی تعلیم حاصل نہیں کی. انہوں نے انگریزی میڈیم سکول میں کچھ وقت گزارہ اور اسے چھوڑ دیا. وہ عام طور پر ادب اور علم میں دلچسپی رکھتے تھے. ذاتی کامیابیوں اور مطالعات کی جستجو میں، انہوں نے بہت زیادہ معلومات حاصل کیں. ان کی تعلیم نے ان کے اندر ایک غیر معمولی روشنی پیدا کی تھی. انہوں نے شاعری مرتب کرنا اور شاعروں سے ملنا شروع کیا. انہوں نے اپنی شاعری کو بہتر بنانے کے لئے منشی جلال اللہ واجد بلگرامی اور منشی امیر اللہ کو اپنی شاعری دکھائی. اس وقت، انہوں نے اردو میگزین “ہندوساتانی” میں شمولیت اختیار کی، اور انہوں نے کئی سال اس میگزین کے ایڈیٹر کی حیثیت سے کام کیا. لائبریریوں میں ان کی شاعری “کلیات اصغر گونڈوی” کے نام سے دستیاب ہے.
2016 میں ان کی منتخب نظمیں جمع کی گئیں اور ان کے مجموعہ میں عبد العزیز سہیر کے کردار میں اخلاقی اور صوفیانہ کو “انتخاب-ای-کلام-اصغر-گونڈوی” کے نام سے شائع کیا گیا.
1936 میں الہ آباد میں، فالج کی وجہ سے ان کا انتقال ہوگیا.
Ghazal
مے بے رنگ کا سو رنگ سے رسوا ہونا
مے بے رنگ کا سو رنگ سے رسوا ہونا کبھی میکش کبھی ساقی کبھی مینا ہونا از ازل تا بہ ابد محو تماشا ہونا میں
جو نقش ہے ہستی کا دھوکہ نظر آتا ہے
جو نقش ہے ہستی کا دھوکہ نظر آتا ہے پردے پہ مصور ہی تنہا نظر آتا ہے نیرنگ تماشا وہ جلوا نظر آتا ہے آنکھوں
تیرے جلووں کے آگے ہمت شرح و بیاں رکھ دی
ترے جلووں کے آگے ہمت شرح و بیاں رکھ دی زبان بے نگہ رکھ دی نگاہ بے زباں رکھ دی مٹی جاتی تھی بلبل جلوۂ
گم کر دیا ہے دید نے یوں سر بہ سر مجھے
گم کر دیا ہے دید نے یوں سر بہ سر مجھے ملتی ہے اب انہیں سے کچھ اپنی خبر مجھے نالوں سے میں نے آگ
حسن کو وسعتیں جو دیں عشق کو حوصلہ دیا
حسن کو وسعتیں جو دیں عشق کو حوصلہ دیا جو نہ ملے نہ مٹ سکے وہ مجھے مدعا دیا ہاتھ میں لے کے جام مے
کون تھا اس کے ہوا خواہوں میں جو شامل نہ تھا
کون تھا اس کے ہوا خواہوں میں جو شامل نہ تھا اب ہوا معلوم مجھ کو دل بھی میرا دل نہ تھا عشق کی بیتابیوں
مجاز کیسا کہاں حقیقت ابھی تجھے کچھ خبر نہیں ہے
مجاز کیسا کہاں حقیقت ابھی تجھے کچھ خبر نہیں ہے یہ سب ہے اک خواب کی سی حالت، جو دیکھتا ہے سحر نہیں ہے شمیم
پاتا نہیں جو لذت آہ سحر کو میں
پاتا نہیں جو لذت آہ سحر کو میں پھر کیا کروں گا لے کے الٰہی اثر کو میں آشوب گاہ حشر مجھے کیوں عجیب ہو
گرم تلاش و جستجو اب ہے تری نظر کہاں
گرم تلاش و جستجو اب ہے تری نظر کہاں خون ہے کچھ جما ہوا قلب کہاں جگر کہاں ہے یہ طریق عاشقی چاہیئے اس میں
یہ ننگ عاشقی ہے سود و حاصل دیکھنے والے
یہ ننگ عاشقی ہے سود و حاصل دیکھنے والے یہاں گمراہ کہلاتے ہیں منزل دیکھنے والے خط ساغر میں راز حق و باطل دیکھنے والے
رقص مستی دیکھتے جوش تمنا دیکھتے
رقص مستی دیکھتے جوش تمنا دیکھتے سامنے لا کر تجھے اپنا تماشا دیکھتے کم سے کم حسن تخیل کا تماشا دیکھتے جلوۂ یوسف تو کیا
پاس ادب میں جوش تمنا لئے ہوئے
پاس ادب میں جوش تمنا لئے ہوئے میں بھی ہوں اک حباب میں دریا لئے ہوئے رگ رگ میں اور کچھ نہ رہا جز خیال
Sher
اے شیخ وہ بسیط حقیقت ہے کفر کی
اے شیخ وہ بسیط حقیقت ہے کفر کی کچھ قید رسم نے جسے ایماں بنا دیا اصغر گونڈوی
ہر اک جگہ تری برق نگاہ دوڑ گئی
ہر اک جگہ تری برق نگاہ دوڑ گئی غرض یہ ہے کہ کسی چیز کو قرار نہ ہو اصغر گونڈوی
زاہد نے مرا حاصل ایماں نہیں دیکھا
زاہد نے مرا حاصل ایماں نہیں دیکھا رخ پر تری زلفوں کو پریشاں نہیں دیکھا اصغر گونڈوی
وہ شوخ بھی معذور ہے مجبور ہوں میں بھی
وہ شوخ بھی معذور ہے مجبور ہوں میں بھی کچھ فتنے اٹھے حسن سے کچھ حسن نظر سے اصغر گونڈوی
عشق کی بیتابیوں پر حسن کو رحم آ گیا
عشق کی بیتابیوں پر حسن کو رحم آ گیا جب نگاہ شوق تڑپی پردہ محمل نہ تھا اصغر گونڈوی
کچھ ملتے ہیں اب پختگی عشق کے آثار
کچھ ملتے ہیں اب پختگی عشق کے آثار نالوں میں رسائی ہے نہ آہوں میں اثر ہے اصغر گونڈوی
اس جلوہ گاہ حسن میں چھایا ہے ہر طرف
اس جلوہ گاہ حسن میں چھایا ہے ہر طرف ایسا حجاب چشم تماشا کہیں جسے اصغر گونڈوی
ہم اس نگاہ ناز کو سمجھے تھے نیشتر
ہم اس نگاہ ناز کو سمجھے تھے نیشتر تم نے تو مسکرا کے رگ جاں بنا دیا اصغر گونڈوی
قہر ہے تھوڑی سی بھی غفلت طریق عشق میں
قہر ہے تھوڑی سی بھی غفلت طریق عشق میں آنکھ جھپکی قیس کی اور سامنے محمل نہ تھا اصغر گونڈوی
میں کامیاب دید بھی محروم دید بھی
میں کامیاب دید بھی محروم دید بھی جلووں کے اژدحام نے حیراں بنا دیا اصغر گونڈوی
حل کر لیا مجاز حقیقت کے راز کو
حل کر لیا مجاز حقیقت کے راز کو پائی ہے میں نے خواب کی تعبیر خواب میں اصغر گونڈوی
اصغر غزل میں چاہئے وہ موج زندگی
اصغرؔ غزل میں چاہئے وہ موج زندگی جو حسن ہے بتوں میں جو مستی شراب میں اصغر گونڈوی