Bahadur Shah Zafar
- 24 October 1775 – 7 November 1862
- Dehli, India
Introduction
اس نے اپنی تعلیم عربی اور فارسی کے ساتھ ساتھ جنگ کے فنون لطیفہ اور تیر اندازی میں حاصل کی. شاعری ، موسیقی ، روحانیت اور لکھاوٹ میں گہری دلچسپی کے ساتھ ان کی پرورش ہوئی. وہ خطاطی کی حیثیت سے عمدہ لکھاری تھے۔ وہ اپنے ہاتھ سے لکھے ہوئے قرآن کی نقول دہلی کی بڑی مساجد کو بطور چندہ بھیجا کرتے تھے. وہ صرف نام کی حکمرانی کرنے کے لئے باسٹھ سال کی پختہ عمر میں تخت نشین ہوئے تھے۔ انہوں نے اپنی طاقت اور پہچان کھو دی تھی اور خود کے مضبوط علاقے تک محدود ہو کر رہ گئے تھے. ایک لبرل حکمران ، جس نے تمام عقائد کی تعریف کی ، وہ سکون سے پیار کرتا تھا اور 1857 میں بغاوت کے اتحادی کے طور پر منظر عام پر آۓ تھے۔ برطانوی ریاست کیساتھ غداری اور برطانوی سلطنت کے خلاف ایک بہت بڑی بغاوت میں ان کو قصوروار ٹھرایا گیا۔ شہر میں برطانوی فوج کے داخلے کے ساتھ ہی وہ اپنی اہلیہ اور دو بیٹوں کے ہمراہ ہمایوں کے مقبرے میں پناہ کی غرض سے چھپے رہے۔ برطانوی فوج نے انہیں گرفتار کیا اور پھر جییل بھیج دیا۔ انکے تین بیٹوں اور پوتے کے سر قلم کر دۓ گئے اور ان کے سر نمائش کیلئے اور برطانوی سلطنت سے غداری کرنے کی پاداش میں نشان عبرت کے طور پر لٹکائے گئے۔ باقی شہزادوں کو قید اور نظربند کر لیا گیا۔ اس بات نے انہیں غم میں مبتلا کردیا۔ انگریزوں کے خلاف بغاوت کی پاداش میں اور برطانوی سامراج کو خوش کرنے کے لئے ان کے خلاف بیالیس دن سے زیادہ کی قانونی کارروائی کی گئی اور آخرکار انہیں سزائے موت کی سزا سنائی گئی جو بعد میں ملک بدر کرنے میں تبدیل ہوگئی. 1858 میں ، انہیں رنگون میں انکی زوجہ اور دو بیٹوں اور ایک بہو کے ہمراہ ملک بدر کر دیا گیا جو کہ آج کے دور کے میانمار کے دارالحکومت یانگون کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اور یہ اس وقت برطانوی سامراج کے زیر تسلط تھا۔ انہوں نے اپنی زندگی کے آخری چار سال وہاں بےسروسامانی اور مایوسی اور شرمندگی میں گزارے. جس جگہ بہادر شاہ ظفر کو دفن کیا گیا تھا اس جگہ کو کافی وقت تک پوشیدہ رکھا گیا۔ 1991 میں ایک جگہ کہ بارے میں یہ کہا جاتا ہہ کہ یہ وہ جگہ ہے جہاں پر انکو دفنایا گیا تھا۔ برطانوی سامراج ک افسر بہادر شاہ ظفر کا تاج اور دوسرے بہت سے زیورات اور جواہرات ساتھ لے کر لندن چلے گئے۔ جنہیں بعد میں لندن کی رائل کلیکشن میں نمائش کے طور پر رکھا گیا ہے.
بہادر شاہ ظفر ایک عظیم شاعر تھے، جنہوں نے مغل سلطنت کے زوال کو یاد کیا. ان کی شاعری ہمدردی اور درد کی گہری تفہیم کی خصوصیت رکھتی ہے اور یہ افسوسناک انسانی مشکل کی ایک شکل ہے. انہوں نے اپنی شاعری سے ، مرزا نسیر کی رہنمائی کی. زوق کے انتقال کے بعد ، یہ غالب ہی تھا جس نے اردو ادب کو دوام بخشا. انہوں نے شیخ سعدی کے گلستان کا ترجمہ اور تشریح بھی کی ہے. کچھ تجزیہ کاروں نے کہا ہے کہ ان کی زیادہ تر شاعری انکی خود کی لکھی ہوئی نہیں ہے بلکہ ان کے اساتذہ نے اس شاعری کو ان کے حوالے کیا تھا جس میں اچھا لہجہ استعمال نہیں ہوا ہے۔ بغیر کسی شک کے بہادر شاہ ظفر کی شاعری انکی زندگی میں آنے والے مشکل خالات کی عکاسی کرتی ہے. ظفر نے چار کتابوں میں غزلوں کا ایک بہت بڑا مجموعہ چھوڑا ہے جس میں انکی کی کلیات بھی شامل ہیں۔
Ghazal
یاں خاک کا بستر ہے گلے میں کفنی ہے
یاں خاک کا بستر ہے ، گلے میں کفنی ہے واں ہاتھ میں آئینہ ہے گل پیرہنی ہے ہاتھوں سے ہمیں عشق کہ دن رات
تفتہ جانُوں کا علاج اے اہل دانش اور ہے
تفتہ جانُوں کا علاج اے اہل دانش اور ہے عشق کی آتش بلا ہے ، اس کی سوزش اور ہے کیوں نہ وحشت میں چبھے
خواہ کر انصاف ظالم خواہ کر بیداد تُو
خواہ کر انصاف ظالم خواہ کر بیداد تُو پر جو فریادی ہیں ان کی سن تُو لے فریاد تُو دم بدم بھرتے ہیں ہم تری
واں ارادہ آج اِس قاتِل کہ دل میں اور ہے
واں ارادہ آج اِس قاتِل کہ دل میں اور ہے اور یہاں کچھ آرزو بسمل کے دل میں اور ہے وصل کی ٹھہراوے ظالم تُو
پان کی سرخی نہیں لب پر بُت خوں خوار کہ
پان کی سرخی نہیں لب پر بُت خوں خوار کہ لگ گیا ہے خُون عاشق منہ کو اس تلوار کہ خال عارض دیکھ لو حلقے
نہ دائم غم ہے نے عشرت کبھی یُوں ہے کبھی ووں ہے
نہ دائم غم ہے نے عشرت کبھی یُوں ہے کبھی ووں ہے تبدل یاں ہے ہر ساعت کبھی یُوں ہے کبھی ووں ہے گریباں چاک
کریں گے قصد ہم جس دَم تُمہارے گھر میں آویں گے
کریں گے قصد ہم جس دَم تُمہارے گھر میں آویں گے جُو ہوگی عمر بھر کی راہ تُو دم بھر میں آویں گے اگر ہاتھوں
پان کھا کر سرمہ کی تحریر پھر کھینچی تُو کیا
پان کھا کر سرمہ کی تحریر پھر کھینچی تُو کیا جب میرا خوں ہو چکا ، شمشیر پھر کھینچی تُو کیا اے مہوس جب کے
رُخ جو زیر سنبل پر پیچ و تاب آ جائے گا
رُخ جو زیر سنبل پر پیچ و تاب آ جائے گا پھر کہ برج سنبلہ میں آفتاب آ جائے گا ترا احساں ہوگا قاصد گر
قاروں اٹھا کہ سر پہ سنا گنج لے چلا
قاروں اٹھا کہ سر پہ سنا گنج لے چلا دنیا سے کیا بخیل بجز رنج لے چلا منت تھی بوسۂ لب شیریں کے دل میرا
نباہ بات کا اِس حیلہ گر سے کچھ نہ ہوا
نباہ بات کا اِس حیلہ گر سے کچھ نہ ہوا ادھر سے کیا نہ ہوا ، پر ادھر سے کچھ نہ ہوا جواب صاف تو
نہ اس کا بھید یاری سے نہ عیاری سے ہاتھ آیا
نہ اس کا بھید یاری سے نہ عیاری سے ہاتھ آیا خدا آگاہ ہے دل کی خبرداری سے ہاتھ آیا نہ ہوں جن کہ ٹھکانے
Sher
بھری ہے دل میں جو حسرت کہوں تو کس سے کہوں
بھری ہے دِل میں جُو حسرت کہوں تُو کس سے کہوں .سنے ہے کون مصیبت کہوں تُو کس سے کہوں بہادر شاہ ظفر
غضب ہے کے دل میں تو رکھو کدورت
غضب ہے کے دِل میں تُو رکھو کدورت .کرو منہ پہ ہم سے صفائی کی باتیں بہادر شاہ ظفر
ہم یہ تو نہیں کہتے کے غم کہہ نہیں سکتے
ہم یہ تُو نہیں کہتے کے غم کہہ نہیں سکتے .پر جُو سبب غم ہے وُہ ہم کہہ نہیں سکتے بہادر شاہ ظفر
سب مٹا دیں دل سے ہیں جتنی کے اس میں خواہشیں
سب مٹا دیں دِل سے ہیں جتنی کے اس میں خواہشیں گر ہمیں معلوم ہو کچھ اس کی خواہش اُور ہے بہادر شاہ ظفر
دل کو دل سے راہ ہے تو جس طرح سے ہم تجھے
دِل کو دِل سے راہ ہے تُو جس طرح سے ہم تُجھے .یاد کرتے ہیں کرے یُوں ہی ہمیں بھی یاد تُو بہادر شاہ ظفر
بنایا اے ظفرؔ خالق نے کب انسان سے بہتر
بنایا اے ظفرؔ خالق نے کب اِنسان سے بہتر .ملک کو دیو کو جن کو پری کو حور و غلماں کو بہادر شاہ ظفر
فرہاد و قیس و وامق و عذرا تھے چار دوست
فرہاد و قیس و وامق و عذرا تھے چار دُوست .اب ہم بھی آ ملے تُو ہوئے مل کہ چار پانچ بہادر شاہ ظفر
خواب میرا ہے عین بیداری
خواب میرا ہے عین بیداری .میں تُو اس میں بھی دیکھتا کچھ ہوں بہادر شاہ ظفر
جا کہیو میرا نسیم سحر
جا کہیو میرا نسیم سحر .میرا چین گیا میری نیند گئی بہادر شاہ ظفر
اب کی جو راہ محبت میں اٹھائی تکلیف
اب کی جُو راہ مُحبت میں اُٹھائی تکلیف .سخت ہوتی ہمیں منزل کبھی ایسی تُو نہ تھی بہادر شاہ ظفر
بت پرستی جس سے ہووے حق پرستی اے ظفرؔ
بُت پرستی جس سے ہووے حق پرستی اے ظفرؔ .کیا کہوں تُجھ سے کے وُہ طرز پرستش اُور ہے بہادر شاہ ظفر
ادھر خیال میرے دل میں زلف کا گزرا
ادھر خیال میرے دِل میں زلف کا گزرا .ادھر وُہ کھاتا ہوا دِل میں پیچ و تاب آیا بہادر شاہ ظفر