Iztirab

Iztirab

Aamir Sauhail

سلونی سردیوں کی نظم

پرانے بوٹ ہیں تسمے کھلے ہیں ابھی مٹی کے چہرے ان دھلے ہیں شرابیں اور مشکیزہ سحر کا ابھی ہے جسم پاکیزہ گجر کا ستے چہرے پہ استہزا کا موسم لہو نبضوں سے خالی کر گیا ہے گلے میں ملک کے تعویذ ڈالو بدیسی برچھیوں سے ڈر گیا ہے غزل دالان میں رکھی ہے میں […]

سلونی سردیوں کی نظم Read More »

اب تم کو ہی ساون کا سندیسہ نہیں بننا

اب تم کو ہی ساون کا سندیسہ نہیں بننا مجھ کو بھی کسی اور کا رستہ نہیں بننا کہتی ہے کہ آنکھوں سے سمندر کو نکالو ہنستی ہے کہ تم سے تو کنارہ نہیں بننا محتاط ہے اتنی کہ کبھی خط نہیں لکھتی کہتی ہے مجھے اوروں کے جیسا نہیں بننا تصویر بناؤں تو بگڑ

اب تم کو ہی ساون کا سندیسہ نہیں بننا Read More »

رستے میں عجب آثار ملے

رستے میں عجب آثار ملے جوں کوئی پرانا یار ملے جس طرح کڑکتی دھوپوں میں دو جسموں کو دیوار ملے جس طرح مسافر گاڑی میں اک رشتے کی مہکار ملے جس طرح پرانے کپڑوں سے اک چوڑی خوشبو دار ملے جس طرح اندھیرے کھیتوں میں اک رت مشعل بردار ملے جس طرح کوئی ہنس مکھ

رستے میں عجب آثار ملے Read More »