Iztirab

Iztirab

Aamir Sauhail Ghazal

اب تم کو ہی ساون کا سندیسہ نہیں بننا

اب تم کو ہی ساون کا سندیسہ نہیں بننا مجھ کو بھی کسی اور کا رستہ نہیں بننا کہتی ہے کہ آنکھوں سے سمندر کو نکالو ہنستی ہے کہ تم سے تو کنارہ نہیں بننا محتاط ہے اتنی کہ کبھی خط نہیں لکھتی کہتی ہے مجھے اوروں کے جیسا نہیں بننا تصویر بناؤں تو بگڑ […]

اب تم کو ہی ساون کا سندیسہ نہیں بننا Read More »

رستے میں عجب آثار ملے

رستے میں عجب آثار ملے جوں کوئی پرانا یار ملے جس طرح کڑکتی دھوپوں میں دو جسموں کو دیوار ملے جس طرح مسافر گاڑی میں اک رشتے کی مہکار ملے جس طرح پرانے کپڑوں سے اک چوڑی خوشبو دار ملے جس طرح اندھیرے کھیتوں میں اک رت مشعل بردار ملے جس طرح کوئی ہنس مکھ

رستے میں عجب آثار ملے Read More »

ادا ہے خواب ہے تسکین ہے تماشا ہے

ادا ہے خواب ہے تسکین ہے تماشا ہے ہماری آنکھ میں اک شخص بے تحاشا ہے ذرا سی چائے گری اور داغ داغ ورق یہ زندگی ہے کہ اخبار کا تراشا ہے تمہارا بولتا چہرہ پلک سے چھو چھو کر یہ رات آئینہ کی ہے یہ دن تراشا ہے ترے وجود سے بارہ دری دمک

ادا ہے خواب ہے تسکین ہے تماشا ہے Read More »

لہو میں رنگ سخن اس کا بھر کے دیکھتے ہیں

لہو میں رنگ سخن اس کا بھر کے دیکھتے ہیں چراغ بام سے جس کو اتر کے دیکھتے ہیں ملائمت ہے غزل کی سی اس کی باتوں میں یہ بات ہے تو چلو بات کرکے دیکھتے ہیں صحیفۂ لب و رخسار و پیرہن اس کا تلاوتوں میں ہیں پتے شجر کے دیکھتے ہیں بلا کے

لہو میں رنگ سخن اس کا بھر کے دیکھتے ہیں Read More »

سر کو آواز سے وحشت ہی سہی

سر کو آواز سے وحشت ہی سہی اور وحشت میں اذیت ہی سہی خاک زادی ترے عشاق بہت میں تری یاد سے غارت ہی سہی وہ کہاں ہیں کہ جو مصلوب نہ تھے میری مٹی میں بغاوت ہی سہی آہ و آہنگ و اہانت کے کنار اے مری پیاس پہ تہمت ہی سہی خود سے

سر کو آواز سے وحشت ہی سہی Read More »

اک وظیفہ ہے کسی درد کا دہرایا ہوا

اک وظیفہ ہے کسی درد کا دہرایا ہوا جس کی زد میں ہے پہاڑوں کا دھواں آیا ہوا یہ ترے عشق کی میقات یہ ہونی کی ادا دھوپ کے شیشے میں اک خواب سا پھیلایا ہوا باندھ لیتے ہیں گرہ میں اسی منظر کی دھنک ہم نے مہمان کو کچھ دیر ہے ٹھہرایا ہوا طائرو

اک وظیفہ ہے کسی درد کا دہرایا ہوا Read More »

مٹی کی صراحی ہے

مٹی کی صراحی ہے پانی کی گواہی ہے ہر غنچۂ لب درباں ہر شاخ سپاہی ہے عشاق نہیں ہم لوگ پر رنگ تو کاہی ہے سبزے پہ کھنچا نقشہ اور سرخ سیاہی ہے اک سانولی پت جھڑ کے پشتے پہ تباہی ہے ادھڑی ہوئی قبروں پر کتبوں کی مناہی ہے اے کانچ کی سی پنڈلی

مٹی کی صراحی ہے Read More »

لہو رگوں میں سنبھالا نہیں گیا مجھ سے

لہو رگوں میں سنبھالا نہیں گیا مجھ سے کسی دشا میں اچھالا نہیں گیا مجھ سے سڈول بانہوں میں بھرتا میں لوچ ساون کا وہ سنگ موم میں ڈھالا نہیں گیا مجھ سے میں خواب پڑھتا تھا ہمسائیگی کی ابجد سے مگر وہ حسن خیالا نہیں گیا مجھ سے وہی ہے میرے لہو میں چمک

لہو رگوں میں سنبھالا نہیں گیا مجھ سے Read More »

سبز حکایت سرخ کہانی

سبز حکایت سرخ کہانی تیرے آنچل کی مہمانی سہج سہج اس حسن کا چلنا اس پہ اندھی شب طوفانی اک مصرع وہ جسم اکہرا دوجا میرے لب دہقانی جلد سنہری ہونٹ پیازی اس پہ خواہش کی ارزانی بالوں کا گھنگھور اندھیرا ابھری اینٹوں کی حیرانی پنڈلی سے ٹکراتی پنڈلی اترن کی فتنہ سامانی اک لڑکی

سبز حکایت سرخ کہانی Read More »

سسکیوں ہچکیوں آہوں کی فراوانی میں

سسکیوں ہچکیوں آہوں کی فراوانی میں الجھنیں کتنی ہیں اس عشق کی آسانی میں یہ ترے بالوں کا تالاب کی تہ کو چھونا حالت خواب میں یا عالم عریانی میں بے حجابانہ کسی لہر کا تجھ تک آنہ پھر ترے جسم کا بہہ جانا گھنے پانی میں کہکشاؤں کا غزالوں کا غزل زادوں کا دور

سسکیوں ہچکیوں آہوں کی فراوانی میں Read More »