اگر ملے جو غم روزگار سے فرصت
اگر ملے جو غم روزگار سے فرصت تو میں بھی ذہن کا دریا کھنگال سکتا ہوں آکاش اتھرو Fazi Khan
اگر ملے جو غم روزگار سے فرصت تو میں بھی ذہن کا دریا کھنگال سکتا ہوں آکاش اتھرو Fazi Khan
اگر وہ چاہنے کا من بناتا قسم سے میں اسے دلہن بناتا جھٹک کے زلف انگڑائی وہ لیتی ادھر میں جھومتا ساون بناتا بناتا میں اگر تصویر تیری صراحی کی طرح گردن بناتا کسی پتھر کو پہلے کرتا مورت پھر اس کے واسطے دھڑکن بناتا بنا لیتا میں خود کو رام لیکن یہ دویدھا تھی
بھلے ہی دیر سے تم سے کیا اظہار شہزادی مگر بچپن سے کرتے ہیں تمہیں سے پیار شہزادی کہانی میں کہانی کار نے سو رنگ ڈالے ہیں مگر اس میں ہے سب سے قیمتی کردار شہزادی نہیں آتا تمہارا اب کوئی میسج کہ کیسے ہو کہاں اتنی بزی رہنے لگی ہو یار شہزادی مری تصویر
پہلے پہل تو مجھ کو ہچکی آتی تھی بعد میں تیرے نام کی چٹی آتی تھی بانٹ لیا کرتے تھے دونوں گھر کا دکھ وہ بھی دفتر تھوڑا جلدی آتی تھی کب ملنا ہے اور کہاں پر ملنا ہے کاپی میں رکھ کر یہ پرچی آتی تھی ہم ملتے تھے اس سے ایسے موسم میں
تمہارے نام کا سکہ اچھال سکتا ہوں تمہیں سلیقے سے میں دیکھ بھال سکتا ہوں ابھی تو صرف بگاڑا ہے تیری عادت کو میں تجھ کو خود میں ابھی اور ڈھال سکتا ہوں جو تیری ذات سے مجھ کو ملے ہیں اے جاناں میں ان غموں کو کلیجہ میں پال سکتا ہوں مرے خدا کی