کچھ تو مجبوریاں رہی ہوں گی
کچھ تو مجبوریاں رہی ہوں گی یوں کوئی بے وفا نہیں ہوتا بشیر بدر Fazi Khan
اجالے اپنی یادوں کے ہمارے ساتھ رہنے دو نہ جانے کس گلی میں زندگی کی شام ہو جائے بشیر بدر Fazi Khan
یاروں کی محبت کا یقیں کر لیا میں نے پھولوں میں چھپایا ہوا خنجر نہیں دیکھا بشیر بدر Fazi Khan
نہ جی بھر کے دیکھا نہ کچھ بات کی بڑی آرزو تھی ملاقات کی بشیر بدر Fazi Khan
زندگی تو نے مجھے قبر سے کم دی ہے زمیں پاؤں پھیلاؤں تو دیوار میں سر لگتا ہے بشیر بدر Fazi Khan
دشمنی جم کر کرو لیکن یہ گنجائش رہے جب کبھی ہم دوست ہو جائیں تو شرمندہ نہ ہوں بشیر بدر Fazi Khan
یہاں لباس کی قیمت ہے آدمی کی نہیں مجھے گلاس بڑے دے شراب کم کر دے بشیر بدر Fazi Khan
ہر دھڑکتے پتھر کو لوگ دل سمجھتے ہیں عمریں بیت جاتی ہیں دل کو دل بنانے میں بشیر بدر Fazi Khan
اتنی ملتی ہے مری غزلوں سے صورت تیری لوگ تجھ کو مرا محبوب سمجھتے ہوں گے بشیر بدر Fazi Khan
بڑے لوگوں سے ملنے میں ہمیشہ فاصلہ رکھنا جہاں دریا سمندر سے ملا دریا نہیں رہتا بشیر بدر Fazi Khan