خواب تھا یا خیال تھا کیا تھا
خواب تھا یا خیال تھا کیا تھا ہجر تھا یا وصال تھا کیا تھا میرے پہلو میں رات جا کر وہ ماہ تھا یا ہلال تھا کیا تھا چمکی بجلی سی پر نہ سمجھے ہم حسن تھا یا جمال تھا کیا تھا شب جو دل دو دو ہاتھ اچھلتا تھا وجد تھا یا وہ حال […]
خواب تھا یا خیال تھا کیا تھا ہجر تھا یا وصال تھا کیا تھا میرے پہلو میں رات جا کر وہ ماہ تھا یا ہلال تھا کیا تھا چمکی بجلی سی پر نہ سمجھے ہم حسن تھا یا جمال تھا کیا تھا شب جو دل دو دو ہاتھ اچھلتا تھا وجد تھا یا وہ حال […]
جب تک یہ محبت میں بد نام نہیں ہوتا اس دل کے تئیں ہرگز آرام نہیں ہوتا عالم سے ہمارا کچھ مذہب ہی نرالا ہے یعنی ہیں جہاں ہم واں اسلام نہیں ہوتا کب وعدہ نہیں کرتیں ملنے کا تری آنکھیں کس روز نگاہوں میں پیغام نہیں ہوتا بال اپنے بڑھاتے ہیں کس واسطے دیوانے
رات پردے سے ذرا منہ جو کسو کا نکلا شعلہ سمجھا تھا اسے میں پہ بھبھوکا نکلا مہر و مہ اس کی پھبن دیکھ کے حیران رہے جب ورق یار کی تصویر دورو کا نکلا یہ ادا دیکھ کے کتنوں کا ہوا کام تمام نیمچہ کل جو ٹک اس عربدہ جو کا نکلا مر گئی
لوگ کہتے ہیں محبت میں اثر ہوتا ہے کون سے شہر میں ہوتا ہے کدھر ہوتا ہے اس کے کوچے میں ہے نت صورت بیداد نئی قتل ہر خستہ بانداز دگر ہوتا ہے نہیں معلوم کہ ماتم ہے فلک پر کس کا روز کیوں چاک گریبان سحر ہوتا ہے ووہیں اپنی بھی ہے باریک تر
عاشق تو ملیں گے تجھے انساں نہ ملے گا مجھ سا تو کوئی بندۂ فرماں نہ ملے گا ہوں منتظر لطف کھڑا کب سے ادھر دیکھ کیا مجھ کو دل اے طرۂ جاناں نہ ملے گا کہنے کو مسلماں ہیں سبھی کعبے میں لیکن ڈھونڈوگے اگر ایک مسلماں نہ ملے گا ناصح اسے سینا ہے
عقل گئی ہے سب کی کھوئی کیا یہ خلق دوانی ہے آپ حلال میں ہوتا ہوں ان لوگوں کو قربانی ہے نطق زباں گر ہوتا مجھ کو پوچھتا میں تقصیر مری ہاں یہ مگر دو آنکھیں ہیں سو ان سے اشک فشانی ہے گھاس چری ہے جنگل کی میں جون میں دنبے بکرے کی ان
آساں نہیں ہے تنہا در اس کا باز کرنا لازم ہے پاسباں سے اب ہم کو ساز کرنا گر ہم مشیر ہوتے اللہ کے تو کہتے یعنی وصال کی شب یا رب دراز کرنا اس کا سلام مجھ سے اب کیا ہے گردش رو طفلی میں میں سکھایا جس کو نماز کرنا ازبسکہ خون دل
آنا ہے یوں محال تو اک شب بہ خواب آ مجھ تک خدا کے واسطے ظالم شتاب آ دیتا ہوں نامہ میں تجھے اس شرط پر ابھی قاصد تو اس کے پاس سے لے کر جواب آ ایسا ہی عزم ہے تجھے گر کوئے یار کا چلتا ہوں میں بھی اے دل پر اضطراب آ
غم دل کا بیان چھوڑ گئے ہم یہ اپنا نشان چھوڑ گئے تری دہشت سے باغ میں صیاد مرغ سب آشیان چھوڑ گئے راہ میں مجھ کو ہمرہاں میرے جان کو ناتوان چھوڑ گئے نفرت آئی سگ و ہما کو کیا جو مرے استخوان چھوڑ گئے چلتے چلتے بھی یہ جفا کیشاں ہاتھ مجھ پر
اب مجھ کو گلے لگاؤ صاحب یک شب کہیں تم بھی آؤ صاحب روٹھا ہوں جو تم سے میں تو مجھ کو آ کر کے تمہیں مناؤ صاحب بیٹھے رہو میرے سامنے تم از بہر خدا نہ جاؤ صاحب کچھ خوب نہیں یہ کج ادائی ہر لحظہ نہ بھوں چڑھاؤ صاحب رکھتے نہیں پردہ غیر