اس بت کو نہیں ہے ڈر خدا سے
اس بت کو نہیں ہے ڈر خدا سے بگڑی بندے سے گر خدا سے گو خلق بھی جانے حال میرا پوشیدہ نہیں مگر خدا سے ہے ہم سے تو آہ آہ کرنا دینا اس کو اثر خدا سے ہم نے اسے اپنا سود جانا پہنچا بھی اگر ضرر خدا سے دیکھا ہے میں جب سے […]
اس بت کو نہیں ہے ڈر خدا سے بگڑی بندے سے گر خدا سے گو خلق بھی جانے حال میرا پوشیدہ نہیں مگر خدا سے ہے ہم سے تو آہ آہ کرنا دینا اس کو اثر خدا سے ہم نے اسے اپنا سود جانا پہنچا بھی اگر ضرر خدا سے دیکھا ہے میں جب سے […]
ازبسکہ جی ہے تجھ بن بیزار زندگی سے بہتر ہے مجھ کو مرنا اے یار زندگی سے مر جاؤں میں تو رونا میرا تمام ہووے شاکی ہیں میری چشم خوں بار زندگی سے اس شاہد نہاں کا کشتہ ہوں میں کہ جس نے کھینچی ہے درمیاں میں دیوار زندگی سے مرتے تو چھوٹ جاتے رنج
آئے ہو تو یہ حجاب کیا ہے منہ کھول دو نقاب کیا ہے سینے میں ٹھہرتا ہی نہیں دل یارب اسے اضطراب کیا ہے کل تیغ نکال مجھ سے بولا تو دیکھ تو اس کی آب کیا ہے معلوم نہیں کہ اپنا دیواں ہے مرثیہ یا کتاب کیا ہے جو مر گئے مارے لطف ہی
یہ آنکھیں ہیں تو سر کٹا کر رہیں گی کسو سے ہمیں یاں لڑا کر رہیں گی اگر یہ نگاہیں ہیں کم بخت اپنی تو کچھ ہم کو تہمت لگا کر رہیں گی یہ سفاکیاں ہیں تو جوں مرغ بسمل ہمیں خاک و خوں میں ملا کر رہیں گی کیا ہم نے معلوم نظروں سے
ہوں شیخ مصحفی کا میں حیران شاعری اللہ مفلسی میں یہ کچھ شان شاعری روندا اسے تمام مرے رخش کلک نے سودا سے بچ رہا تھا جو میدان شاعری میں اور لے کے سودہ نمک اس میں بھر دیا تھا اس کا کم نمک جو نمکدان شاعری ہندوستاں کے گردن خورد و بزرگ پر ہے
کیا چمکے اب فقط مری نالے کی شاعری اس عہد میں ہے تیغ کی بھالے کی شاعری سامان سب طرح کا ہو لڑنے کا جن کے پاس ہے آج کل انہیں کی مسالے کی شاعری شاعر رسالہ دار نہ دیکھے نہ میں سنے ایجاد ہے انہیں کا رسالے کی شاعری مرد گلیم پوش کو یاں
کہیں مغز اس کے میں صبح دم تری بوئے زلف رسا گئی ترے کوچے سے جو چمن تلک گل اڑاتی خاک صبا گئی مرض اک جہاں سے نرالا تھا مری جان تیرے مریض کا نہ ہوا کسی سے علاج جب اجل اس کی کرنے دوا گئی غرض اس نباہ کے صدقے میں غرض ایسی چاہ
کہہ گیا کچھ تو زیر لب کوئی جان دیتا ہے بے سبب کوئی جاوے قاصد ادھر تو یہ کہیو راہ تکتا ہے روز و شب کوئی گو کہ آنکھوں میں اپنی آوے جان منہ دکھاتا ہے ہم کو کب کوئی بن گیا ہوں میں صورت دیوار سامنے آ گیا ہے جب کوئی گرچہ ہم سائے
نہیں کرتی اثر فریاد میری کوئی کس طرح دیوے داد میری فغان جاں گسل رکھتا ہوں لیکن نہیں سنتا مرا صیاد میری تو اے پیغام بر جھوٹی ہی کچھ کہہ کہ خوش ہو خاطر ناشاد میری میں تجھ کو یاد کرتا ہوں الٰہی ترے بھی دل میں ہوگی یاد میری نہیں ہوتا مقید میں کسی
نسیم صبح چمن سے ادھر نہیں آتی ہزار حیف کہ گل کی خبر نہیں آتی رکھے ہے آئینہ کیا منہ پہ میرے اے ہم دم کہ زندگی مجھے اپنی نظر نہیں آتی بھٹکتی پھرتی ہے لیلیٰ سوار ناقے پر جدھر ہے وادئ مجنوں ادھر نہیں آتی کمر ہی کو تری پروا نہیں ہے کچھ اس