میری سی تو نے گل سے نہ گر اے صبا کہی
میری سی تو نے گل سے نہ گر اے صبا کہی میں بھی لگا دوں آگ گلستاں کو تو سہی گو صبح دور ہے شب ہجراں کی لیک تو اپنی طرف سے تو نہ کر اے نالہ گو تہی ظالم پھرا مزاج نہ تیرا غرور سے انصاف کر تو میں تری کیا کیا جفا سہی […]
میری سی تو نے گل سے نہ گر اے صبا کہی میں بھی لگا دوں آگ گلستاں کو تو سہی گو صبح دور ہے شب ہجراں کی لیک تو اپنی طرف سے تو نہ کر اے نالہ گو تہی ظالم پھرا مزاج نہ تیرا غرور سے انصاف کر تو میں تری کیا کیا جفا سہی […]
مدت سے ہوں میں سر خوش صہبائے شاعری ناداں ہے جس کو مجھ سے ہے دعوائے شاعری میں لکھنؤ میں زمزمہ سنجان شہر کو برسوں دکھا چکا ہوں تماشائے شاعری پھبتا نہیں ہے بزم امیران دہر میں شاعر کو میرے سامنے غوغائے شاعری اک طرفہ خر سے کام پڑا ہے مجھے کہ ہائے سمجھے ہے
شب ہجر صحرائے ظلمات نکلی میں جب آنکھ کھولی بہت رات نکلی مجھے گالیاں دے گیا وہ صریحاً مرے منہ سے ہرگز نہ کچھ بات نکلی ہوا وادیٔ قتل صحرائے محشر مری نعش جب روز میقات نکلی کمی کر گیا ناز پنہاں کا خنجر نہ جاں تیرے بسمل کی ہیہات نکلی تو اے مصحفیؔ اب
زلفوں کا بکھرنا اک تو بلا، عارض کی جھلک پھر ویسی ہی آنکھوں کا مٹکنا ہوش ربا، ہر ایک پلک پھر ویسی ہی وہ شوخ جو گزرے مثل صبا، تو بھڑکے نہ کیوں کر آتش دل اک طور کی اس کی جنبش پا، دامن کی جھٹک پھر ویسی ہی کوئی کیوں نہ گریباں چاک کرے
زلفوں کا بکھرنا اک تو بلا عارض کی جھلک پھر ویسی ہی Read More »
رحمت تری اے ناقہ کش محمل حاجی چاہے تو کرے راہب بت خانہ کو ناجی کس دن نہ اٹھا دل سے مرے شور پرستش کس رات یہاں کعبے میں ناقوس نہ باجی میں آپ کمر بستہ ہوں اب قتل پہ اپنے بن یار ہے جینے سے مرا بس کہ خفا جی اک سینے میں دل
دیکھ اس کو اک آہ ہم نے کر لی حسرت سے نگاہ ہم نے کر لی کیا جانے کوئی کہ گھر میں بیٹھے اس شوخ سے راہ ہم نے کر لی بندہ پہ نہ کر کرم زیادہ بس بس تری چاہ ہم نے کر لی جب اس نے چلائی تیغ ہم پر ہاتھوں کی پناہ
دل کے نگر میں چار طرف جب غم کی دہائی بیٹھ گئی سر پہ ہمارے دست قضا سے تیغ جدائی بیٹھ گئی ہم ہیں فقیر اللہ کے یارو پھر اس کا ہے پریکھا کیا گر ہم پاس بھی آ کر کوئی بہنی مائی بیٹھ گئی سن کے ادائے غم کی تیرے صبر و شکیب ہیں
در تلک آ کے ٹک آواز سنا جاؤ جی اپنے مشتاق کو اتنا بھی نہ ترساؤ جی غیر کے ساتھ سے بھاگے ہے مجھے دیکھ تو میں اس سے کہتا ہوں کہ اس کو تمہی ٹھہراؤ جی میں جو اک روز بلایا انہیں گھر جاتے دیکھ پاس آ بیٹھ کے کہنے لگے فرماؤ جی شانہ
چلے لے کے سر پر گناہوں کی گٹھری سفر میں یہ ہے رو سیاہوں کی گٹھری پڑی روز محشر وہیں برق آ کر جہاں تھی ترے دادخواہوں کی گٹھری مسافر میں اس دشت کا ہوں کہ جس میں لٹی کتنے گم کردہ راہوں کی گٹھری جہاں سوس نے بحر سے سر نکالا میں سمجھا ہے
جی سے مجھے چاہ ہے کسی کی کیا جانے کوئی کسی کی جی کی شاہد رہیو تو اے شب ہجر جھپکی نہیں آنکھ مصحفیؔ کی رونے پہ مرے جو تم ہنسو ہو یہ کون سی بات ہے ہنسی کی جوں جوں کہ بناؤ پر وہ آیا دونی ہوئی چاہ آرسی کی گو اب وہ جواں