Iztirab

Iztirab

Ghulam Hamdani Mushafi Ghazal

در تلک جانے کی ہے اس کے مناہی ہم کو

در تلک جانے کی ہے اس کے مناہی ہم کو اپنی بس اب نظر آتی ہے تباہی ہم کو روز جوں توں کہ ہوا شام تو پھر بہتر عذاب نظر آئی شب ہجراں کی سیاہی ہم کو ہم تو جانے کا ارادہ نہیں کرتے لیکن وہ کمر سوئے عدم کرتی ہے راہی ہم کو کیوں […]

در تلک جانے کی ہے اس کے مناہی ہم کو Read More »

خریدار اپنا ہم کو جانتے ہو

خریدار اپنا ہم کو جانتے ہو بھلا اتنا تو تم پہچانتے ہو بنے گا چہرہ یہ کس کا مہ و مہر جو تم بیٹھے صباحت چھانتے ہو اٹھو اے زخمیان کوچۂ یار عبث کیوں خوں میں ماٹی سانتے ہو وہ آنے کا نہیں اب گھر سے باہر تم اس قاتل کو کم پہچانتے ہو یکا

خریدار اپنا ہم کو جانتے ہو Read More »

بات کو میری الگ ہو کے نہ شرماؤ سنو

بات کو میری الگ ہو کے نہ شرماؤ سنو کچھ کہا چاہوں ہوں میں تم سے ادھر آؤ سنو میں تو جانے کا نہیں رو بہ رو اس کے یارو کچھ وہ گر تم سے کہے ہے تو تمہیں جاؤ سنو چھیڑنے کو مرے گر آپ کا جی چاہے ہے بے ادب ہوں میں مرے

بات کو میری الگ ہو کے نہ شرماؤ سنو Read More »

ایک تو بیٹھے ہو دل کو مرے کھو اور سنو

ایک تو بیٹھے ہو دل کو مرے کھو اور سنو تس پہ کہتے ہو دیا ہے تجھے لو اور سنو مے پیو آپ جو دیویں مجھے تلچھٹ احباب ان سے کہتے ہو اسے خاک نہ دو اور سنو قصہ اپنا تو میں سب تم سے کہا اے یارو چپکے کیوں بیٹھے ہو کچھ تم بھی

ایک تو بیٹھے ہو دل کو مرے کھو اور سنو Read More »

از بس بھلا لگے ہے تو میرے یار مجھ کو

از بس بھلا لگے ہے تو میرے یار مجھ کو بے اختیار تجھ پر آتا ہے پیار مجھ کو صیاد کا برا ہو جس کے تغافلوں نے کنج قفس میں رکھا فصل بہار مجھ کو جاؤں کدھر کو یارو مانند صید خرگہ مژگاں نے کر رکھا ہے اس کی شکار مجھ کو اس رفتگی پہ

از بس بھلا لگے ہے تو میرے یار مجھ کو Read More »

آج پلکوں کو جاتے ہیں آنسو

آج پلکوں کو جاتے ہیں آنسو الٹی گنگا بہاتے ہیں آنسو آتش دل تو خاک بجھتی ہے اور جی کو جلاتے ہیں آنسو خون دل کم ہوا مگر جو مرے آج تھم تھم کے آتے ہیں آنسو جب تلک دیدہ گریہ ساماں ہو دل میں کیا جوش کھاتے ہیں آنسو گوکھرو پر تمہاری انگیا کے

آج پلکوں کو جاتے ہیں آنسو Read More »

آتا ہے کس انداز سے ٹک ناز تو دیکھو

آتا ہے کس انداز سے ٹک ناز تو دیکھو کس دھج سے قدم پڑتا ہے انداز تو دیکھو طاؤس پری جلوہ کو ٹھکرا کے چلے ہے انداز خرام بت طناز تو دیکھو یک جنبش لب اس کی نے لاکھوں کو جلایا عیسیٰ کو یہ قدرت تھی تم اعجاز تو دیکھو کرتا ہوں میں دزدیدہ نظر

آتا ہے کس انداز سے ٹک ناز تو دیکھو Read More »

یہ دل وہ شیشہ ہے جھمکے ہے وہ پری جس میں

یہ دل وہ شیشہ ہے جھمکے ہے وہ پری جس میں بھرا ہے موئے بہ مو سحر سامری جس میں یہ لعل لخت جگر ہے وہ لعل بیش بہا کہ کام کرتی نہیں چشم جوہری جس میں دیا ہے میں نے دل ایسے کو اور پریشاں ہوں نہ مہر ہے نہ محبت نہ دلبری جس

یہ دل وہ شیشہ ہے جھمکے ہے وہ پری جس میں Read More »

یہ جو اپنے ہاتھ میں دامن سنبھالے جاتے ہیں

یہ جو اپنے ہاتھ میں دامن سنبھالے جاتے ہیں پیچھے پیچھے ان کے، ان پر مرنے والے جاتے ہیں لطف و رنجش کا تماشا ہے کہ دن میں لاکھ بار گہہ بلائے جاتے ہیں ہم گہہ نکالے جاتے ہیں جان سے جاتے رہے ہیں بسکہ لاکھوں بے گناہ ہر طرف کوچے میں اس کے خوں

یہ جو اپنے ہاتھ میں دامن سنبھالے جاتے ہیں Read More »

یک نالۂ عاشقانہ ہے یاں

یک نالۂ عاشقانہ ہے یاں یک زخمہ بصد ترانہ ہے یاں مذکور رہے ہے درد و غم کا دن رات یہی فسانہ ہے یاں پھینکے ہے وہ تیر غمزہ مجھ پر سمجھے ہے کہ دل نشانہ ہے یاں گر اپنی بدی کے سر کو کاٹے بیگانہ بھی پر یگانہ ہے یاں یک جنبش شوق دل

یک نالۂ عاشقانہ ہے یاں Read More »