Iztirab

Iztirab

Ghulam Hamdani Mushafi Ghazal

میاں صبر آزمائی ہو چکی بس

میاں صبر آزمائی ہو چکی بس ملو اب بے وفائی ہو چکی بس بہار خود نمائی ہو چکی بس جہاں چھوٹی ہوائی ہو چکی بس یہی ہے اس کی گر بیگانہ وضعی تو ہم سے آشنائی ہو چکی بس بھروسا کیا ہمارا اشک کی بوند جہاں مژگاں پر آئی ہو چکی بس پھنسے صیاد کے […]

میاں صبر آزمائی ہو چکی بس Read More »

مجھ سے اک بات کیا کیجئے بس

مجھ سے اک بات کیا کیجئے بس اس قدر مہر و وفا کیجئے بس آفریں سامنے آنکھوں کے مری یوں ہی تا دیر رہا کیجئے بس دل بیمار ہوا اب چنگا دوستو ترک دوا کیجئے بس خون عاشق سے یہ پرہیز اسے آشنائے کف پا کیجئے بس شرم تا چند حیا بھی کب تک منہ

مجھ سے اک بات کیا کیجئے بس Read More »

وحشت ہے میرے دل کو تو تدبیر وصل کر

وحشت ہے میرے دل کو تو تدبیر وصل کر پانو میں اس غزال کے زنجیر وصل کر زخمی شکار ہوں میں ترا مر ہی جاؤں گا پہلو سے مت جدا تو مرے تیر وصل کر اک لحظہ تیری باتوں سے آتا ہے دل کو چین ہم دم خدا کے واسطے تقریر وصل کر دست دراز

وحشت ہے میرے دل کو تو تدبیر وصل کر Read More »

موج نکہت کی صبا دیکھ سواری تیار

موج نکہت کی صبا دیکھ سواری تیار خار سے کی ہے گل تر نے کٹاری تیار کہہ دو مجنوں سے کرے اپنی سواری تیار آج یاں ہوتی ہے لیلیٰ کی سواری تیار ہاتھ دونوں کف افسوس کی صورت لکھے کی جو نقاش نے تصویر ہماری تیار تیغ کو سان پہ رکھا تھا تبھی قاتل نے

موج نکہت کی صبا دیکھ سواری تیار Read More »

تم گرم ملے ہم سے نہ سرما کے دنوں میں

تم گرم ملے ہم سے نہ سرما کے دنوں میں پیش آئے بہ گرمی بھی تو گرما کے دنوں میں جب آئی خزاں ہم کو کہا ”باغ چلو ہو” پوچھا نہ کبھی سیر و تماشا کے دنوں میں نے غرفے سے جھانکا نہ کبھی بام پر آئے پنہاں رہے تم حسن دل آرا کے دنوں

تم گرم ملے ہم سے نہ سرما کے دنوں میں Read More »

تجھ بن تو کبھی گل کے تئیں بو نہ کروں میں

تجھ بن تو کبھی گل کے تئیں بو نہ کروں میں مر جاؤں پہ گلشن کی طرف رو نہ کروں میں گر جعد کو سنبل کی صبا بیچنے لاوے خاطر سے تری قیمت یک مو نہ کروں میں پلے میں ترے حسن کے گو ہو وہ گراں تر یوسف کو ترا سنگ ترازو نہ کروں

تجھ بن تو کبھی گل کے تئیں بو نہ کروں میں Read More »

پردہ اٹھا کے مہر کو رخ کی جھلک دکھا کہ یوں

پردہ اٹھا کے مہر کو رخ کی جھلک دکھا کہ یوں باغ میں جا کے سرو کو قد کی لچک دکھا کہ یوں آتش گل چمن کے بیچ جب ہمہ سو ہو شعلہ زن اپنے لباس سرخ کی اس کو بھڑک دکھا کہ یوں جو کوئی پوچھے جان من شوخی و جلوہ کس طرح لمعۂ

پردہ اٹھا کے مہر کو رخ کی جھلک دکھا کہ یوں Read More »

بھری آتی ہیں ہر گھڑی آنکھیں

بھری آتی ہیں ہر گھڑی آنکھیں گویا ساون کی ہیں جھڑی آنکھیں نرگس آٹھ آٹھ آنسو روتی ہے یاد کر وہ بڑی بڑی آنکھیں شرر افشانیٔ سرشک سے رات تھیں مری جیسے پھلجھڑی آنکھیں جوں قلمرو رہی ہیں اشک سیاہ دیکھ اس مسی کی دھڑی آنکھیں مصحفیؔ دیکھ بد بلا ہے وہ شوخ نہ ملا

بھری آتی ہیں ہر گھڑی آنکھیں Read More »

بعد مردن کی بھی تدبیر کیے جاتا ہوں

بعد مردن کی بھی تدبیر کیے جاتا ہوں اپنی قبر آپ ہی تعمیر کیے جاتا ہوں چین مطلق نہیں پڑتا شب ہجراں میں مجھے صبح تک نالۂ شب گیر کیے جاتا ہوں عفو پر عفو کی ریزش ہے ادھر سے ہر دم اور میں تقصیر پہ تقصیر کیے جاتا ہوں اس کے کوچے میں جو

بعد مردن کی بھی تدبیر کیے جاتا ہوں Read More »

بزم سرود خوباں میں گو مردنگیں شاہین بجیں

بزم سرود خوباں میں گو مردنگیں شاہین بجیں ساتھ فقیر کی ڈھولک کے پر ڈھم ڈھمیاں رنگین بجیں نالہ کشی سے رات جو گلشن رشک بزم عشرت تھا منقاریں مرغان چمن کی صبح تلک جوں بین بجیں تجھ سے نہ کہتا تھا میں زاہد مے خانے کی راہ نہ چل آخر تجھ پر رستے ہی

بزم سرود خوباں میں گو مردنگیں شاہین بجیں Read More »