Iztirab

Iztirab

Ghulam Hamdani Mushafi Ghazal

جیتا رہوں کے ہجر میں مر جاؤں کیا کروں

جیتا رہوں کے ہجر میں مر جاؤں کیا کروں تُو ہی بتا مُجھے میں کدھر جاؤں کیا کروں ہے اضطراب دِل سے نپٹ عرصہ مُجھ پہ تنگ آج اس تلک بہ دیدۂ تر جاؤں کیا کروں حیران ہوں کے کیونکے یہ قصہ چکے میرا سر رکھ کہ تیغ ہی پہ گزر جاؤں کیا کروں بتلا […]

جیتا رہوں کے ہجر میں مر جاؤں کیا کروں Read More »

جوں ہی زنجیر کہ پاس آئے پاؤں

جوں ہی زنجیر کہ پاس آئے پاؤں دیکھ اس کو میرے تھرائے پاؤں خط کا لایا نہ ادھر سے وُہ جواب یُوں ہی قاصد کہ میں تھکوائے پاؤں بد گمانی نہ ہو عاشق کی زیاد اس نے شب غیر سے دبوائے پاؤں ہاتھ سے یار کا دامن دے کر ہر طرف پھرتے ہیں گھبرائے پاؤں

جوں ہی زنجیر کہ پاس آئے پاؤں Read More »

جُو پری بھی رُوبرو ہو تُو پری کو میں نہ دیکھوں

جُو پری بھی رُوبرو ہو تُو پری کو میں نہ دیکھوں میری آنکھیں بند کر دُو کے کسی کو میں نہ دیکھوں دِل گرم خون الفت میرے بر میں رکھ دیا ہے سوئے گُل تُو ملتفت ہوں جُو کلی کو میں نہ دیکھوں میرا دِل لگا ہے جس سے میرا جی گیا ہے جس پر

جُو پری بھی رُوبرو ہو تُو پری کو میں نہ دیکھوں Read More »

جلوہ گر اس کا سراپا ہے بدن آئنے میں

جلوہ گر اس کا سراپا ہے بدن آئنے میں نظر آتا ہے ہمیں سرو چمن آئنے میں سینہ صافوں سے خبر عالم علوی کی تُو پُوچھ عرش و کرسی ہے یہاں عکس فگن آئنے میں تاب آزردگی کب ہے دِل عاشق کو یہاں چین پیشانی سے پڑتی ہے شکن آئنے میں چشم بیمار سے ٹپکے

جلوہ گر اس کا سراپا ہے بدن آئنے میں Read More »

تمہاری اُور میری کج ادائیاں ہی رہیں

تمہاری اُور میری کج ادائیاں ہی رہیں رہے جُو پاس تُو باہم لڑائیاں ہی رہیں ز بسکہ کرتے رہے بے کسوں پہ تم بیداد سدا گلی میں تمہاری دوہائیاں ہی رہیں ہوئی نہ ساز میری اس کی صحبت اِک شب ہائے ادھر سے عجز ادھر سے رکھائیاں ہی رہیں دریغ یار سے بچھڑے تُو اِیسے

تمہاری اُور میری کج ادائیاں ہی رہیں Read More »

تماشے کی شکلیں عیاں ہو گئی ہیں

تماشے کی شکلیں عیاں ہو گئی ہیں بہاریں بہت یاں خزاں ہو گئی ہیں خبر پس روؤں سے تم ان کی نہ پُوچھو جُو روحیں عدم کو رواں ہو گئی ہیں نکالی ہیں جُو ہم نے اوج سخن سے زمینیں وُہ سب آسماں ہو گئی ہیں انہیں فرض ہے تیر کا کس کہ سجدہ جُو

تماشے کی شکلیں عیاں ہو گئی ہیں Read More »

دلبر کی تمنائے بر دوش میں مر جائے

دلبر کی تمنائے بر دوش میں مر جائے کیا یُوں ہی کوئی حسرت آغوش میں مر جائے قبر اس کی پہ لازم ہے خم مے کا چڑھانا جُو مست کے عشق بت مے نوش میں مر جائے ہے طرفہ اذیت کوئی کس طرح خدایا یاد صنم وعدہ فراموش میں مر جائے سرگوشی کی رخصت نہ

دلبر کی تمنائے بر دوش میں مر جائے Read More »

دِل کو یہ اضطرار کیسا ہے

دِل کو یہ اضطرار کیسا ہے دیکھیو بے قرار کیسا ہے ایک بُوسہ بھی دے نہیں سکتا مُجھ کو پیارے تُو یار کیسا ہے کشتۂ تیغ ناز کیا جانے خنجر آب دار کیسا ہے ہر گھڑی گالیاں ہی دیتے ہو جان میری یہ پیار کیسا ہے مے نہیں پی تُو کیوں چھپاتے ہو انکھڑیوں میں

دِل کو یہ اضطرار کیسا ہے Read More »

دِل چرانا یہ کام ہے ترا

دِل چرانا یہ کام ہے ترا لے گیا ہے تُو نام ہے ترا ہے قیامت بپا کے جلوے میں قامت خوش خرام ہے ترا جس نے عالم کیا ہے زیر و زبر یہ خط مشک فام ہے ترا دید کرنے کو چاہئیں آنکھیں ہر طرف جلوہ عام ہے ترا کس کا یہ خوں کیے تُو

دِل چرانا یہ کام ہے ترا Read More »

جُو پھرا کہ اس نے منہ کو بہ قفا نقاب الٹا

جُو پھرا کہ اس نے منہ کو بہ قفا نقاب الٹا ادھر آسمان الٹا ادھر آفتاب الٹا نہ قفس میں ایسے مُجھ کو تُو اسیر کیجو صیاد کے گھڑی گھڑی وُہ ہووے دم اضطراب الٹا میرے حال پر مغاں نے یہ کرم کیا کے ہنس ہنس میرے ننگے سر پہ رکھا قدح شراب الٹا تیرا

جُو پھرا کہ اس نے منہ کو بہ قفا نقاب الٹا Read More »