Iztirab

Iztirab

Ghulam Hamdani Mushafi Ghazal

دل خوش نہ ہوا زلف پریشاں سے نکل کر

دل خوش نہ ہوا زلف پریشاں سے نکل کر پچھتائے ہم اس شام غریباں سے نکل کر یہ اس سے زیاں کار تو وہ اس سے بد آئیں جاؤں میں کہاں گبر و مسلماں سے نکل کر استاد کوئی زور ملا قیس کو شاید لی راہ جو جنگل کی دبستاں سے نکل کر معلوم نہیں […]

دل خوش نہ ہوا زلف پریشاں سے نکل کر Read More »

غصے کو جانے دیجے نہ تیوری چڑھائیے

غصے کو جانے دیجے نہ تیوری چڑھائیے میں گالیاں بھی آپ کی کھائیں اب آئیے رفتار کا جو فتنہ اٹھا تھا سو ہو چکا اب بیٹھے بیٹھے اور کوئی فتنہ اٹھائیے میرا تو کیا دہن ہے جو بوسے کا لوں میں نام گالی بھی مجھ کو دیجے تو گویا جلائیے بولا کسی سے میں بھی

غصے کو جانے دیجے نہ تیوری چڑھائیے Read More »

کب صبا سوئے اسیران قفس آتی ہے

کب صبا سوئے اسیران قفس آتی ہے کب یہ ان تک خبر آمد گل لاتی ہے دختر رز کی ہوں صحبت کا مباشر کیوں کر ابھی کمسن ہے بہت مرد سے شرماتی ہے کیونکہ فربہ نہ نظر آوے تری زلف کی لٹ جونک سی یہ تو مرا خون ہی پی جاتی ہے جسم نے روح

کب صبا سوئے اسیران قفس آتی ہے Read More »

معشوقۂ گل نقاب میں ہے

معشوقۂ گل نقاب میں ہے محجوبہ ابھی حجاب میں ہے مہندی نہ لگا کہ جان میری ہاتھوں سے ترے عذاب میں ہے تو ہے وہ بلا کہ ماہ و خورشید زلفوں کی ترے رکاب میں ہے ہر اک تجھے آپ سا کہے ہے قضیہ مہ و آفتاب میں ہے اللہ رے ترے پسینے کی بو

معشوقۂ گل نقاب میں ہے Read More »

غزل کہنے کا کس کو ڈھب رہا ہے

غزل کہنے کا کس کو ڈھب رہا ہے وہ رتبہ عشق کا اب کب رہا ہے بشاشت برگ گل میں ہے جو اتنی کسی کے لب پر اس کا لب رہا ہے مشوش شکل سے اس گل کی ظاہر یہ ہوتا ہے کہیں وہ شب رہا ہے پرستش ہی میں شب آخر ہوئی ہے ہمارے

غزل کہنے کا کس کو ڈھب رہا ہے Read More »

آہ دیکھی تھی میں جس گھر میں پری کی صورت

آہ دیکھی تھی میں جس گھر میں پری کی صورت اب نظر آئے ہے واں نوحہ گری کی صورت نہ وہ انداز نہ آواز نہ عشوہ نہ ادا یک بہ یک مٹ گئی یوں جلوہ گری کی صورت اب خیال اس کا وہاں آنکھوں میں پھرتا ہے مری کوئی پھرتا تھا جہاں کبک دری کی

آہ دیکھی تھی میں جس گھر میں پری کی صورت Read More »

اس گلشن پر خار سے مانند صبا بھاگ

اس گلشن پر خار سے مانند صبا بھاگ وحشت یہی کہتی ہے کہ زنجیر تڑا بھاگ گرتے تھے خریدار کب اس طرح سے اس پر پاؤں سے ترے لگتے ہی مہندی کو لگا بھاگ شوخی کہوں کیا تیرے تصور کی کہ ہے ہے شب سامنے آ کر مرے آگے سے گیا بھاگ جب کبک دری

اس گلشن پر خار سے مانند صبا بھاگ Read More »

کہتی ہے نماز صبح کی بانگ

کہتی ہے نماز صبح کی بانگ اٹھ صبح ہوئی ہے کچھ دعا مانگ دیکھا میں چہار دانگ عالم پر ہاتھ لگا نہ کچھ بھی اک دانگ سیمیں بدن اس کا چاندنی میں ڈرتا ہوں پگھل نہ جاوے جوں رانگ ٹوٹا جو ہمارا شیشۂ دل پہنچے گی فلک تک اس کی گلبانگ بہروپ ہے یہ جہاں

کہتی ہے نماز صبح کی بانگ Read More »

نے بت ہے نہ سجدہ ہے نے بادہ نہ مستی ہے

نے بت ہے نہ سجدہ ہے نے بادہ نہ مستی ہے یاں شعر پرستی ہے یا حسن پرستی ہے ساعد سے ترے شعلے یوں حسن کے اٹھتے ہیں ہاتھوں میں ترے گویا مہتابئ دستی ہے بیماریٔ سل سے کم سمجھو نہ غم الفت یہ سل مرے سینے سے اب کوئی اکستی ہے معمورۂ دل اپنا

نے بت ہے نہ سجدہ ہے نے بادہ نہ مستی ہے Read More »

نہ وہ وعدۂ سر راہ ہے نہ وہ دوستی نہ نباہ ہے

نہ وہ وعدۂ سر راہ ہے نہ وہ دوستی نہ نباہ ہے نہ وہ دل فریبی کے ہیں چلن نہ وہ پیاری پیاری نگاہ ہے ترے ہجر میں مہ سیم بر کوئی غور سے جو کرے نظر مری صبح شام سے ہے بتر مرا روز شب سے سیاہ ہے ہے ہر ایک بات میں اب

نہ وہ وعدۂ سر راہ ہے نہ وہ دوستی نہ نباہ ہے Read More »