Iztirab

Iztirab

Josh Malihabadi Ghazal

میری حالت دیکھیے اور ان کی صورت دیکھیے

میری حالت دیکھیے اور ان کی صورت دیکھیے پھر نگاہ غور سے قانون قدرت دیکھیے سیر مہتاب و کواکب سے تبسم تابکے رو رہی ہے وہ کسی کی شمع تربت دیکھیے آپ اک جلوہ سراسر میں سراپا اک نظر اپنی حاجت دیکھیے میری ضرورت دیکھیے اپنے سامان تعیش سے اگر فرصت ملے بیکسوں کا بھی […]

میری حالت دیکھیے اور ان کی صورت دیکھیے Read More »

سوز غم دے کے مجھے اس نے یہ ارشاد کیا

سوز غم دے کے مجھے اس نے یہ ارشاد کیا جا تجھے کشمکش دہر سے آزاد کیا وہ کریں بھی تو کن الفاظ میں تیرا شکوہ جن کو تیری نگہ لطف نے برباد کیا دل کی چوٹوں نے کبھی چین سے رہنے نہ دیا جب چلی سرد ہوا میں نے تجھے یاد کیا اے میں

سوز غم دے کے مجھے اس نے یہ ارشاد کیا Read More »

قدم انساں کا راہ دہر میں تھرا ہی جاتا ہے

قدم انساں کا راہ دہر میں تھرا ہی جاتا ہے چلے کتنا ہی کوئی بچ کے ٹھوکر کھا ہی جاتا ہے نظر ہو خواہ کتنی ہی حقائق آشنا پھر بھی ہجوم کشمکش میں آدمی گھبرا ہی جاتا ہے خلاف مصلحت میں بھی سمجھتا ہوں مگر ناصح وہ آتے ہیں تو چہرے پر تغیر آ ہی

قدم انساں کا راہ دہر میں تھرا ہی جاتا ہے Read More »

جب سے مرنے کی جی میں ٹھانی ہے

جب سے مرنے کی جی میں ٹھانی ہے کس قدر ہم کو شادمانی ہے شاعری کیوں نہ راس آئے مجھے یہ مرا فن خاندانی ہے کیوں لب التجا کو دوں جنبش تم نہ مانوگے اور نہ مانی ہے آپ ہم کو سکھائیں رسم وفا مہربانی ہے مہربانی ہے دل ملا ہے جنہیں ہمارا سا تلخ

جب سے مرنے کی جی میں ٹھانی ہے Read More »

وہ صبر دے کہ نہ دے جس نے بیقرار کیا

وہ صبر دے کہ نہ دے جس نے بیقرار کیا بس اب تمہیں پہ چلو ہم نے انحصار کیا تمہارا ذکر نہیں ہے تمہارا نام نہیں کیا نصیب کا شکوہ ہزار بار کیا ثبوت ہے یہ محبت کی سادہ لوحی کا جب اس نے وعدہ کیا ہم نے اعتبار کیا مآل ہم نے جو دیکھا

وہ صبر دے کہ نہ دے جس نے بیقرار کیا Read More »

بے ہوشیوں نے اور خبردار کر دیا

بے ہوشیوں نے اور خبردار کر دیا سوئی جو عقل روح نے بیدار کر دیا اللہ رے حسن دوست کی آئینہ داریاں اہل نظر کو نقش بہ دیوار کر دیا یا رب یہ بھید کیا ہے کہ راحت کی فکر نے انساں کو اور غم میں گرفتار کر دیا دل کچھ پنپ چلا تھا تغافل

بے ہوشیوں نے اور خبردار کر دیا Read More »

یہ بات یہ تبسم یہ ناز یہ نگاہیں

یہ بات یہ تبسم یہ ناز یہ نگاہیں آخر تمہیں بتاؤ کیونکر نہ تم کو چاہیں اب سر اٹھا کے میں نے شکوؤں سے ہات اٹھایا مر جاؤں گا ستم گر نیچی نہ کر نگاہیں کچھ گل ہی سے نہیں ہے روح نمو کو رغبت گردن میں خار کی بھی ڈالے ہوئے ہے بانہیں اللہ

یہ بات یہ تبسم یہ ناز یہ نگاہیں Read More »

اس بات کی نہیں ہے کوئی انتہا نہ پوچھ

اس بات کی نہیں ہے کوئی انتہا نہ پوچھ اے مدعائے خلق مرا مدعا نہ پوچھ کیا کہہ کے پھول بنتی ہیں کلیاں گلاب کی یہ راز مجھ سے بلبل شیریں نوا نہ پوچھ جتنے گدا نواز تھے کب کے گزر چکے اب کیوں بچھائے بیٹھے ہیں ہم بوریا نہ پوچھ پیش نظر ہے پست

اس بات کی نہیں ہے کوئی انتہا نہ پوچھ Read More »

ساری دنیا ہے ایک پردہ راز

ساری دنیا ہے ایک پردہ راز اف رے تیرے حجاب کے انداز موت کو اہل دل سمجھتے ہیں زندگانی عشق کا آغاز مر کے پایا شہید کا رتبہ میری اس زندگی کی عمر دراز کوئی آیا تری جھلک دیکھی کوئی بولا سنی تری آواز ہم سے کیا پوچھتے ہو ہم کیا ہیں اک بیاباں میں

ساری دنیا ہے ایک پردہ راز Read More »

پھر سر کسی کے در پہ جھکائے ہوئے ہیں ہم

پھر سر کسی کے در پہ جھکائے ہوئے ہیں ہم پردے پھر آسماں کے اٹھائے ہوئے ہیں ہم چھائی ہوئی ہے عشق کی پھر دل پہ بے خودی پھر زندگی کو ہوش میں لائے ہوئے ہیں ہم جس کا ہر ایک جزو ہے اکسیر زندگی پھر خاک میں وہ جنس ملائے ہوئے ہیں ہم ہاں

پھر سر کسی کے در پہ جھکائے ہوئے ہیں ہم Read More »