Iztirab

Iztirab

Majeed Amjad Nazm

کون دیکھے گا

جو دن کبھی نہیں بیتا وہ دن کب آئے گا انہی دنوں میں اس اک دن کو کون دیکھے گا اس ایک دن کو جو سورج کی راکھ میں غلطاں انہی دنوں کی تہوں میں ہے کون دیکھے گا اس ایک دن کو جو ہے عمر کے زوال کا دن انہیں دنوں میں نمویاب کون […]

کون دیکھے گا Read More »

بندا

کاش میں تیرے بن گوش میں بندا ہوتا رات کو بے خبری میں جو مچل جاتا میں تو ترے کان سے چپ چاپ نکل جاتا میں صبح کو گرتے تری زلفوں سے جب باسی پھول میرے کھو جانے پہ ہوتا ترا دل کتنا ملول تو مجھے ڈھونڈھتی کس شوق سے گھبراہٹ میں اپنے مہکے ہوئے

بندا Read More »

جینے والے

کیا خبر صبح کے ستارے کو ہے اسے فرصت نظر کتنی پھیلتی خوشبوؤں کو کیا معلوم ہے انہیں مہلت سفر کتنی برق بے تاب کو خبر نہ ہوئی کہ ہے عمر دم شرر کتنی کبھی سوچا نہ پینے والے نے جام میں مے تو ہے مگر کتنی دیکھ سکتی نہیں مآل بہار گرچہ نرگس ہے

جینے والے Read More »

نژاد نو

برہنہ سر ہیں برہنہ تن ہیں برہنہ پا ہیں شریر روحیں ضمیر ہستی کی آرزوئیں چٹکتی کلیاں کہ جن سے بوڑھی اداس گلیاں مہک رہی ہیں غریب بچے کہ جو شعاع سحر گہی ہیں ہماری قبروں پہ گرتے اشکوں کا سلسلہ ہیں وہ منزلیں جن کی جھلکیوں کو ہماری راہیں ترس رہی ہیں انہی کے

نژاد نو Read More »

سوکھا تنہا پتا

اس بیری کی اونچی چوٹی پر وہ سوکھا تنہا پتا جس کی ہستی کا بیری ہے پت جھڑ کی رت کا ہر جھونکا کاش مری یہ قسمت ہوتی کاش میں وہ اک پتا ہوتا ٹوٹ کے جھٹ اس ٹہنی سے گر پڑتا کتنا اچھا ہوتا گر پڑتا اس بیری والے گھر کے آنگن میں گر

سوکھا تنہا پتا Read More »

ساتھی

پھول کی خوشبو ہنستی آئی میرے بسیرے کو مہکانے میں خوشبو میں خوشبو مجھ میں اس کو میں جانوں مجھ کو وہ جانے مجھ سے چھو کر مجھ میں بس کر اس کی بہاریں اس کے زمانے لاکھوں پھولوں کی مہکاریں رکھتے ہیں گلشن ویرانے مجھ سے الگ ہیں مجھ سے جدا ہیں میں بیگانہ

ساتھی Read More »

جس بھی روح کا

جس بھی روح کا گھونگھٹ سرکاؤ۔۔۔ نیچے اک منفعت کا رخ اپنے اطمینانوں میں روشن ہے ہم سمجھتے تھے گھرتے امڈتے بادلوں کے نیچے جب ٹھنڈی ہوا چلے گی دن بدلیں گے لیکن اب دیکھا ہے گھنے گھنے سایوں کے نیچے زندگیوں کی سلسبیلوں میں ڈھکی ڈھکی جن نالیوں سے پانی آ آ کر گرتا

جس بھی روح کا Read More »

خودکشی

ہاں میں نے بھی سنا ہے تمہارے پڑوس میں کل رات ایک حادثۂ قتل ہو گیا ہاں میں نے بھی سنا ہے کہ اک جام زہر کا دو جیونوں کی ننھی سی نوکا ڈبو گیا کوئی دکھی جوان وطن اپنا چھوڑ کر اپنی سکھی کے ساتھ اک اور دیس کو گیا دنیا کے خارزار میں

خودکشی Read More »

منٹو

میں نے اس کو دیکھا ہے اجلی اجلی سڑکوں پر اک گرد بھری حیرانی میں پھیلتی بھیڑ کے اوندھے اوندھے کٹوروں کی طغیانی میں جب وہ خالی بوتل پھینک کے کہتا ہے ”دنیا! تیرا حسن، یہی بد صورتی ہے” دنیا اس کو گھورتی ہے شور سلاسل بن کر گونجنے لگتا ہے انگاروں بھری آنکھوں میں

منٹو Read More »

توسیع شہر

بیس برس سے کھڑے تھے جو اس گاتی نہر کے دوار جھومتے کھیتوں کی سرحد پر بانکے پہرے دار گھنے سہانے چھاؤں چھڑکتے بور لدے چھتنار بیس ہزار میں بک گئے سارے ہرے بھرے اشجار جن کی سانس کا ہر جھونکا تھا ایک عجیب طلسم قاتل تیشے چیر گئے ان ساونتوں کے جسم گری دھڑام

توسیع شہر Read More »