Iztirab

Iztirab

Makhmoor Saeedi

ایک پرانا شہر

مہر بہ لب ویران دریچے دروازے سنسان دور پہاڑوں کی چوٹی پر شاہی گورستان نیم کی شاخوں میں الجھی ہے کنکوے کی کانپ دیواروں پر رینگ رہا ہے شکستگی کا سانپ سڑکیں رہگیروں پر ڈالیں ٹھنڈی سرد نگاہ شرم عریانی سے چپ ہے بوڑھی شہر پناہ وقت کے قدموں کی آہٹ دیتی ہے سنائی ایسے […]

ایک پرانا شہر Read More »

زمیں کا یہ ٹکڑا

زمیں کا یہ ٹکڑا مرے بڑھتے قدموں کو چاروں دشاؤں سے اپنی طرف کھینچتا ہے گلے سے لگا کر مجھے بھینچتا ہے کہ بارہ برس سے یہاں دفن ہوں میں زمیں کا یہ ٹکڑا مرے دیدہ و دل کی منزل مری زندگی ہے کہ ذروں میں اس کے عجب دل کشی ہے مگر میں تو

زمیں کا یہ ٹکڑا Read More »

وہ شہر اب بھی اسی جگہ ہے

وہ شہر اب بھی اسی جگہ ہے وہ سرد ریتیلے راستے آج بھی انہی وادیوں کی جانب رواں دواں ہیں جہاں گھنے جھنڈ ہیں درختوں کے شاخساروں میں چہچہاتے ہوئے پرندوں کی ٹولیاں ہیں جہاں پہاڑوں کی سرمئی چوٹیوں پر آوارہ بادلوں نے نشیمن اپنے بنا رکھے ہیں ندی کے پانی میں سبز پرچھائیوں کی

وہ شہر اب بھی اسی جگہ ہے Read More »

لفظوں کا المیہ

نئے نئے لفظ شور کرتے بڑھے چلے آ رہے ہیں فکر و خیال کی رہ گزار آباد ہو رہی ہے زباں بہت سی پرانی حد بندیوں سے آزاد ہو رہی ہے کئی فسانے جو ان کہے تھے کئی تصور جو بے زباں تھے ہزار ہا سوز و ساز ایسے جو پہلے نا قابل بیاں تھے

لفظوں کا المیہ Read More »

بلاوا

ذرا ٹھہرو کدھر ہم جا رہے ہیں ادھر اس چار دیواری کے پیچھے وہ بوڑھا گورکن چلا رہا ہے ”ادھر آؤ قدم جلدی بڑھاؤ یہاں اس چار دیواری کے اندر جنم دن سے تمہاری منتظر ہیں وہ قبریں جن کی پیشانی پہ اب تک کسی کے نام کا کتبہ نہیں ہے مخمور سعیدی Fazi Khan

بلاوا Read More »

ناستک

یہ مرا شیشۂ دل آئنۂ سادہ و صاف ثبت کچھ اس پہ مشیت کے فرامین بھی ہیں رنگ امید کے رہ رہ کے نکھرتے ہیں کبھی نقش حرماں کے کبھی اس میں ابھر آتے ہیں یہ مرا شیشۂ دل آئنۂ سادہ و صاف اس کے دھندلانے نکھرنے کے کچھ آئین بھی ہیں جوہر افروز کبھی

ناستک Read More »

سفر کا آخری منظر

سفر پر چلے تھے تو سوچا تھا کیا کچھ کئی راستے اپنے قدموں سے ہم روند دیں گے کئی ہم سفر ہر قدم پر ملیں گے رفاقت کا نشہ سفر کی تھکن میں کچھ اس طرح گھلتا رہے گا مسافت کی دوری کو محسوس ہونے نہ دے گا سفر پر چلے تھے تو سوچا تھا

سفر کا آخری منظر Read More »