Dagh Dehlvi
- 25 May 1831-17 March 1905
- Dehli, India
Introduction
نواب مرزا خان جنکا ادبی نام داغ دہلوی ہے، دہلی کے لال قلعے میں پیدا ہوے اور وہیں پرورش پائی۔ انکی والدہ کی شادی شہزادہ مرزا محمد سلطان ، بہادر شاہ ظفر کے فرزند سے ہوئی۔ اپنے والد کے انتقال کے بعد ، انہوں نے لال قلعے کو خیرآباد کہا ، اور 1857 میں دہلی سلطنت کے خاتمے کے بعد رامپور جا کر آباد ہو گئے۔ یہاں انہوں نے ایک دہائی تک آرام و سکون سے زندگی گزاری اور پھر بعد میں یہاں کے بدلتے ہوئے حالات اور روزگار کے پیش نظر ، انہیں لکھنؤ، پٹنا ، کلکتہ اور حیدرآباد جیسے شہروں میں لے گئے۔ خود زوق کے جانشین کی حیثیت سے ، اور اپنے ساکھ کی بقا کیلئے حامیوں کی ایک بڑی تعداد کے ساتھ ، داغ نے غزلوں کے جمالیاتی ضوابط کیساتھ خفیہ شاعرانہ مکالمے کی عکاسی کی. انہوں نے مشترکہ طور پر لکھا اور لکھنؤ اور دہلی ادب کی شاعرانہ شکلوں کو جوڑ دیا. مجموعی طور پر ، داغ کی شاعری دل کو لگنے والی اور پرکشش ہے ، جو احساسات اور اچھے مزاج سے بھری ہوئی ہے. وہ محبت کا تصور دانشورانہ اونچائیوں تک نہیں لے گئے بلکہ اسے بشر کی سطح پر محبت کے علم کا سامنا کرنا پڑا ، جس نے اسے خواہش کے قریب لایا. وہ زبان کے ساتھ سرگرم رہے ، اپنے الفاظ میں کم از کم فارسی الفاظ کا استعمال مضحکہ خیز موڑ ، نظم و نسق میں بہتری ، اور انکے کے مواد سے انک کی بنیادی تکنیک اور وضاحت سے بھری پڑی ہے. کلاسیکی شاعری کے آخری نشانات کی علامت ، اپنے چار دیوانوں کے علاوہ ، انہوں نے بہت سارے مجموعوں اور ایک لمبی تفصیلی نظم نے سب کو کو پیچھے چھوڑ دیا۔
Ghazal
ملاتے ہو اسی کو خاک میں جو دل سے ملتا ہے
ملاتے ہو اسی کو خاک میں جو دل سے ملتا ہے مری جاں چاہنے والا بڑی مشکل سے ملتا ہے کہیں ہے عید کی شادی
تماشائے دیر و حرم دیکھتے ہیں
تماشائے دیر و حرم دیکھتے ہیں تجھے ہر بہانے سے ہم دیکھتے ہیں ہماری طرف اب وہ کم دیکھتے ہیں وہ نظریں نہیں جن کو
دل گیا تم نے لیا ہم کیا کریں
دل گیا تم نے لیا ہم کیا کریں جانے والی چیز کا غم کیا کریں ہم نے مر کر ہجر میں پائی شفا ایسے اچھوں
خاطر سے یا لحاظ سے میں مان تو گیا
خاطر سے یا لحاظ سے میں مان تو گیا جھوٹی قسم سے آپ کا ایمان تو گیا دل لے کے مفت کہتے ہیں کچھ کام
سب لوگ جدھر وہ ہیں ادھر دیکھ رہے ہیں
سب لوگ جدھر وہ ہیں ادھر دیکھ رہے ہیں ہم دیکھنے والوں کی نظر دیکھ رہے ہیں تیور ترے اے رشک قمر دیکھ رہے ہیں
لطف وہ عشق میں پائے ہیں کہ جی جانتا ہے
لطف وہ عشق میں پائے ہیں کہ جی جانتا ہے رنج بھی ایسے اٹھائے ہیں کہ جی جانتا ہے جو زمانے کے ستم ہیں وہ
اس نہیں کا کوئی علاج نہیں
اس نہیں کا کوئی علاج نہیں روز کہتے ہیں آپ آج نہیں کل جو تھا آج وہ مزاج نہیں اس تلون کا کچھ علاج نہیں
بھویں تنتی ہیں خنجر ہاتھ میں ہے تن کے بیٹھے ہیں
بھویں تنتی ہیں خنجر ہاتھ میں ہے تن کے بیٹھے ہیں کسی سے آج بگڑی ہے کہ وہ یوں بن کے بیٹھے ہیں دلوں پر
کہتے ہیں جس کو حور وہ انساں تمہیں تو ہو
کہتے ہیں جس کو حور وہ انساں تمہیں تو ہو جاتی ہے جس پہ جان مری جاں تمہیں تو ہو مطلب کی کہہ رہے ہیں
کعبہ کی ہے ہوس کبھی کوئے بتاں کی ہے
کعبہ کی ہے ہوس کبھی کوئے بتاں کی ہے مجھ کو خبر نہیں مری مٹی کہاں کی ہے سن کے مرا فسانہ انہیں لطف آ
دل کو کیا ہو گیا خدا جانے
دل کو کیا ہو گیا خدا جانے کیوں ہے ایسا اداس کیا جانے اپنے غم میں بھی اس کو صرفہ ہے نہ کھلا جانے وہ
کون سا طائر گم گشتہ اسے یاد آیا
کون سا طائر گم گشتہ اسے یاد آیا دیکھتا بھالتا ہر شاخ کو صیاد آیا میرے قابو میں نہ پہروں دل ناشاد آیا وہ مرا
Sher
ادھر آ کر بھی فاتحہ پڑھ لو
اِدھر آ کر بھی فاتحہ پڑھ لو .آج زیر مزار ہم بھی ہیں داغؔ دہلوی
ان کہ اک جاں نثار ہم بھی ہیں
ان کہ اِک جاں نثار ہم بھی ہیں .ہیں جہاں سو ہزار ہم بھی ہیں داغؔ دہلوی
آخر وہاں رقیب نے نقشہ جما لیا
آخر وہاں رقیب نے نقشہ جما لیا .اے داغؔ خوف تھا اسی بد ذات کا مُجھے داغؔ دہلوی
مل کر تمام بھید کہوں گا رقیب سے
مل کر تمام بھید کہوں گا رقیب سے .آتا ہے خوب توڑ تیری گھات کا مُجھے داغؔ دہلوی
شکوہ نہیں کسی کی ملاقات کا مجھے
شکوہ نہیں کسی کی ملاقات کا مجُھے . تُم جانتے ہو وہم ہے جس بات کا مُجھے داغؔ دہلوی
تجھ سے کیا نسبت کہ تھے لیلیٰ کہ کالے ہاتھ پاؤں
تجُھ سے کیا نسبت کے تھے لیلیٰ کہ کالے ہاتھ پاؤں .حق نے تیرے نور کہ سانچے میں ڈھالے ہاتھ پاؤں داغؔ دہلوی
خبر سن کر میری مرنے کی وہ بولے رقیبوں سے
خبر سُن کر میری مرنے کی وُہ بولے رقیبوں سے .خُدا بخشے بہت سی خُوبیاں تھیں مرنے والے میں داغؔ دہلوی
شب وصال ہے گل کر دو ان چراغوں کو
شب وصُال ہے گُل کر دو ان چراغوں کو . خُوشی کی بزم میں کیا کام جلنے والوں کا داغؔ دہلوی
خوب پردہ ہے کے چلمن سے لگے بیٹھے ہیں
خوب پردہ ہے کے چلمن سے لگے بیٹھے ہیں . صاف چھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں داغؔ دہلوی
کل تک تو آشنا تھے مگر آج غیر ہو
کل تک تُو آشنا تھے مگر آج غیر ہو . دُو دِن میں یہ مزاج ہے آگے کی خیر ہو داغؔ دہلوی
نہ جانا کہ دنیا سے جاتا ہے کوئی
نہ جانا کے دنیا سے جاتا ہے کوئی . بہت دیر کی مہرباں آتے آتے داغؔ دہلوی
بات تک کرنی نہ آتی تھی تمہیں
بات تک کرنی نہ آتی تھی تمہیں . یہ ہمارے سامنے کی بات ہے داغؔ دہلوی