Himayat Ali Shair
- 14 July 1926-15 July 2019
- Aurangabad, British India
Introduction
“Poetry is when an emotion has found its thought and the thought founds words”. Himayat Ali Shair was an Urdu poet. His poetry is famous among poetry lovers. A vast collection of his poetry is available here. Read on his poetry to explore a whole new world.
Ghazal
اپنا انداز جنوں سب سے جدا رکھتا ہوں میں
اپنا انداز جنوں سب سے جدا رکھتا ہوں میں چاک دل چاک گریباں سے سوا رکھتا ہوں میں غزنوی ہوں اور گرفتار خم زلف ایاز
جو کچھ بھی گزرتا ہے مرے دل پہ گزر جائے
جو کچھ بھی گزرتا ہے مرے دل پہ گزر جائے اترا ہوا چہرہ مری دھرتی کا نکھر جائے اک شہر صدا سینے میں آباد ہے
میں جو کچھ سوچتا ہوں اب تمہیں بھی سوچنا ہوگا
میں جو کچھ سوچتا ہوں اب تمہیں بھی سوچنا ہوگا جو ہوگا زندگی کا ڈھب تمہیں بھی سوچنا ہوگا ابھی تو آنکھ اوجھل ہے مگر
اس شہر خفتگاں میں کوئی تو اذان دے
اس شہر خفتگاں میں کوئی تو اذان دے ایسا نہ ہو زمیں کا جواب آسمان دے پڑھنا ہے تو نوشتہ بین السطور پڑھ تحریر بے
آج کی شب جیسے بھی ہو ممکن جاگتے رہنا
آج کی شب جیسے بھی ہو ممکن جاگتے رہنا کوئی نہیں ہے جان کا ضامن جاگتے رہنا قزاقوں کے دشت میں جب تک قافلہ ٹھہرے
رات سنسان دشت و در خاموش
رات سنسان دشت و در خاموش چاند تارے شجر حجر خاموش کوئی آواز پا نہ بانگ جرس کارواں اور اس قدر خاموش ہر طرف اک
پندار زہد ہو کہ غرور برہمنی
پندار زہد ہو کہ غرور برہمنی اس دور بت شکن میں ہے ہر بت شکستنی صرصر چلے کہ تند بگولوں کا رقص ہو موج نمو
میرا شعور مجھ کو یہ آزار دے گیا
میرا شعور مجھ کو یہ آزار دے گیا سورج کی طرح دیدہ بے دار دے گیا ہر پھول اک شرر ہے تو ہر شاخ ایک
منزل کے خواب دیکھتے ہیں پاؤں کاٹ کے
منزل کے خواب دیکھتے ہیں پاؤں کاٹ کے کیا سادہ دل یہ لوگ ہیں گھر کے نہ گھاٹ کے اب اپنے آنسوؤں میں ہیں ڈوبے
یم بہ یم پھیلا ہوا ہے پیاس کا صحرا یہاں
یم بہ یم پھیلا ہوا ہے پیاس کا صحرا یہاں اک سراب تشنگی ہے موجۂ صہبا یہاں روشنی کے زاویوں پر منحصر ہے زندگی آپ
ہو چکی اب شاعری لفظوں کا دفتر باندھ لو
ہو چکی اب شاعری لفظوں کا دفتر باندھ لو تنگ ہو جائے زمیں تو اپنا بستر باندھ لو دوش پر ایمان کی گٹھری ہو سر
کیا کیا نہ زندگی کے فسانے رقم ہوئے
کیا کیا نہ زندگی کے فسانے رقم ہوئے لیکن جو حاصل غم دل تھے وہ کم ہوئے اے تشنگی درد کوئی غم کوئی کرم مدت
Nazm
تضاد
میں سوچتا ہوں میں ایک انسان ہوں ایک مشت غبار ہوں میں ابھی میں یہ سوچ ہی رہا تھا کہ ایک آواز سرسرائی فضا کی
ید بیضا
مری ہتھیلی کے سانپ کب تک ڈسیں گے مجھ کو مری ہتھیلی کے سانپ جو اب مری رگوں میں اتر چکے ہیں بدن کو زنجیر
Sher
پھر مری آس بڑھا کر مجھے مایوس نہ کر
پھر مری آس بڑھا کر مجھے مایوس نہ کر حاصل غم کو خدا را غم حاصل نہ بنا حمایت علی شاعر
ہر طرف اک مہیب سناٹا
ہر طرف اک مہیب سناٹا دل دھڑکتا تو ہے مگر خاموش حمایت علی شاعر
تجھ سے وفا نہ کی تو کسی سے وفا نہ کی
تجھ سے وفا نہ کی تو کسی سے وفا نہ کی کس طرح انتقام لیا اپنے آپ سے حمایت علی شاعر
تاریکی میں لپٹی ہوئی پر ہول خموشی
تاریکی میں لپٹی ہوئی پر ہول خموشی اس عالم میں کیا نہیں ممکن جاگتے رہنا حمایت علی شاعر
ہر قدم پر نت نئے سانچے میں ڈھل جاتے ہیں لوگ
ہر قدم پر نت نئے سانچے میں ڈھل جاتے ہیں لوگ دیکھتے ہی دیکھتے کتنے بدل جاتے ہیں لوگ حمایت علی شاعر
اس جہاں میں تو اپنا سایہ بھی
اس جہاں میں تو اپنا سایہ بھی روشنی ہو تو ساتھ چلتا ہے حمایت علی شاعر
اپنے کسی عمل پہ ندامت نہیں مجھے
اپنے کسی عمل پہ ندامت نہیں مجھے تھا نیک دل بہت جو گنہ گار مجھ میں تھا حمایت علی شاعر
سورج کو یہ غم ہے کہ سمندر بھی ہے پایاب
سورج کو یہ غم ہے کہ سمندر بھی ہے پایاب یا رب مرے قلزم میں کوئی سیل رواں اور حمایت علی شاعر
یہ کیسا قافلہ ہے جس میں سارے لوگ تنہا ہیں
یہ کیسا قافلہ ہے جس میں سارے لوگ تنہا ہیں یہ کس برزخ میں ہیں ہم سب تمہیں بھی سوچنا ہوگا حمایت علی شاعر
رہ جائے اک نگاہ کا پردہ ہی درمیاں
رہ جائے اک نگاہ کا پردہ ہی درمیاں تہذیب کے بدن سے تو رسم قبا اٹھی حمایت علی شاعر
کس لیے کیجے کسی گم گشتہ جنت کی تلاش
کس لیے کیجے کسی گم گشتہ جنت کی تلاش جب کہ مٹی کے کھلونوں سے بہل جاتے ہیں لوگ حمایت علی شاعر
شمع کے مانند اہل انجمن سے بے نیاز
شمع کے مانند اہل انجمن سے بے نیاز اکثر اپنی آگ میں چپ چاپ جل جاتے ہیں لوگ حمایت علی شاعر