Khwaja Haidar Ali Aatish
- 1764 –1846
- Lucknow, India
Introduction
Ghazal
صورت سے اس کی بہتر صورت نہیں ہے کوئی
صورت سے اس کی بہتر صورت نہیں ہے کوئی دیدار یار سی بھی دولت نہیں ہے کوئی آنکھوں کو کھول اگر تو دیدار کا ہے
یا علی کہہ کر بت پندار توڑا چاہئے
یا علی کہہ کر بت پندار توڑا چاہئے نفس امارہ کی گردن کو مروڑا چاہئے تنگ آ کر جسم کو اے روح چھوڑا چاہئے طفل
رخ و زلف پر جان کھویا کیا
رخ و زلف پر جان کھویا کیا اندھیرے اجالے میں رویا کیا ہمیشہ لکھے وصف دندان یار قلم اپنا موتی پرویا کیا کہوں کیا ہوئی
طرہ اسے جو حسن دل آزار نے کیا
طرہ اسے جو حسن دل آزار نے کیا اندھیر گیسوئے سیہ یار نے کیا گل سے جو سامنا ترے رخسار نے کیا مژگاں نے وہ
وہی چتون کی خوں خواری جو آگے تھی سو اب بھی ہے
وہی چتون کی خوں خواری جو آگے تھی سو اب بھی ہے تری آنکھوں کی بیماری جو آگے تھی سو اب بھی ہے وہی نشو
زندے وہی ہیں جو کہ ہیں تم پر مرے ہوے
زندے وہی ہیں جو کہ ہیں تم پر مرے ہوے باقی جو ہیں سو قبر میں مردے بھرے ہوئے مست الست قلزم ہستی میں آئے
حباب آسا میں دم بھرتا ہوں تیری آشنائی کا
حباب آسا میں دم بھرتا ہوں تیری آشنائی کا نہایت غم ہے اس قطرے کو دریا کی جدائی کا اسیر اے دوست تیرے عاشق و
کام ہمت سے جواں مرد اگر لیتا ہے
کام ہمت سے جواں مرد اگر لیتا ہے سانپ کو مار کے گنجینۂ زر لیتا ہے نا گوارا کو جو کرتا ہے گوارا انساں زہر
پیری سے مرا نوع دگر حال ہوا ہے
پیری سے مرا نوع دگر حال ہوا ہے وہ قد جو الف سا تھا سو اب دال ہوا ہے مقبول مرے قول سے قوال ہوا
دوست دشمن نے کئے قتل کے ساماں کیا کیا
دوست دشمن نے کئے قتل کے ساماں کیا کیا جان مشتاق کے پیدا ہوئے خواہاں کیا کیا آفتیں ڈھاتی ہے وہ نرگس فتاں کیا کیا
کوچہ دلبر میں میں بلبل چمن میں مست ہے
کوچہ دلبر میں میں بلبل چمن میں مست ہے ہر کوئی یاں اپنے اپنے پیرہن میں مست ہے نشہ دولت سے منعم پیرہن میں مست
دل بہت تنگ رہا کرتا ہے
دل بہت تنگ رہا کرتا ہے رنگ بے رنگ رہا کرتا ہے حسن میں تیرے کوئی عیب نہیں قبح میں دنگ رہا کرتا ہے صلح
Sher
کچھ نظر آتا نہیں اس کہ تصور کہ سوا
کچھ نظر آتا نہیں اس کہ تصور کہ سوا حسرت دیدار نے آنکھوں کو اندھا کر دیا خواجہ حیدر علی آتش
بڑا شور سنتے تھے پہلو میں دل کا
بڑا شور سُنتے تھے پہلو میں دِل کا جُو چیرا تُو اِک قطرہ خوں نہ نکلا خواجہ حیدر علی آتش
یار کو میں نے مجھے یار نے سونے نہ دیا
یار کو میں نے مُجھے یار نے سونے نہ دیا رات بھر طالع بیدار نے سونے نہ دیا خواجہ حیدر علی آتش
نہ گور سکندر نہ ہے قبر دارا
نہ گور سکندر نہ ہے قبر دارا مٹے نامیوں کہ نشاں کیسے کیسے خواجہ حیدر علی آتش
آپ کی نازک کمر پر بوجھ پڑتا ہے بہت
آپ کی نازک کمر پر بُوجھ پڑتا ہے بہت بڑھ چلے ہیں حد سے گیسو کچھ انہیں کم کیجئے خواجہ حیدر علی آتش
لگے منہ بھی چڑھانے دیتے دیتے گالیاں صاحب
لگے منہ بھی چڑھانے دیتے دیتے گالیاں صاحب زباں بگڑی تُو بگڑی تھی خبر لیجے دہن بگڑا خواجہ حیدر علی آتش
نہ پوچھ حال میرا چوب خشک صحرا ہوں
نہ پُوچھ حال میرا چوب خشک صحرا ہوں لگا کہ آگ مُجھے کارواں روانہ ہوا خواجہ حیدر علی آتش
آئے بھی لوگ بیٹھے بھی اٹھ بھی کھڑے ہوئے
آئے بھی لوگ بیٹھے بھی اُٹھ بھی کھڑے ہوئے میں جا ہی ڈھونڈتا تیری محفل میں رہ گیا خواجہ حیدر علی آتش
اب ملاقات ہوئی ہے تو ملاقات رہے
اب ملاقات ہوئی ہے تُو ملاقات رہے نہ ملاقات تھی جب تک کے ملاقات نہ تھی خواجہ حیدر علی آتش
مہندی لگانے کا جو خیال آیا آپ کو
مہندی لگانے کا جُو خیال آیا آپ کو سوکھے ہوئے درخت حنا کہ ہرے ہوئے خواجہ حیدر علی آتش
بندش الفاظ جڑنے سے نگوں کے کم نہیں
بندش الفاظ جڑنے سے نگوں کہ کم نہیں شاعری بھی کام ہے آتشؔ مرصع ساز کا خواجہ حیدر علی آتش
آفت جاں ہوئی اس روئے کتابی کی یاد
آفت جاں ہوئی اس روئے کتابی کی یاد راس آیا نہ مُجھے حافظ قرآں ہونا خواجہ حیدر علی آتش