Kishwar Naheed
- 1940
- Bulandshahr, Uttar Pradesh, British India
Introduction
Ghazal
تلاش دریا کی تھی بظاہر سراب دیکھا
تلاش دریا کی تھی بظاہر سراب دیکھا وہ کون آنکھیں تھیں جن کی خاطر یہ خواب دیکھا جو رت بھی آئے ہمیں سے گریہ کا
نہ کوئی ربط بجز خامشی و نفرت کے
نہ کوئی ربط بجز خامشی و نفرت کے ملیں گے اب تو خلاصے یہی محبت کے میں قید جسم میں رسوا تو قید میں میری
کہانیاں بھی گئیں قصہ خوانیاں بھی گئیں
کہانیاں بھی گئیں قصہ خوانیاں بھی گئیں وفا کے باب کی سب بے زبانیاں بھی گئیں وہ بازیابیٔ غم کی سبیل بھی نہ رہی لٹا
سرخی بدن میں رنگ وفا کی تھی کچھ دنوں
سرخی بدن میں رنگ وفا کی تھی کچھ دنوں تاثیر یہ بھی اس کی دعا کی تھی کچھ دنوں ڈھونڈے سے اس کے نقش الجھتے
ہوا کچھ اپنے سوال تحریر دیکھتی ہے
ہوا کچھ اپنے سوال تحریر دیکھتی ہے کہ بادلوں کو بھی مثل زنجیر دیکھتی ہے مجھے بلاتا ہے پھر وہی شہر نا مرادی کہ آرزو
آگے سرک رہے ہیں کہ سکتہ بھی ہے عجب
آگے سرک رہے ہیں کہ سکتہ بھی ہے عجب دیوار و در کو شوق تماشا بھی ہے عجب شاید اداس شاخوں سے لپٹا ہوا ملے
دل نے چاہا تھا کہ ہو آبلہ پائی رخصت
دل نے چاہا تھا کہ ہو آبلہ پائی رخصت زندگی دے کے ہوئی شعلہ فشانی رخصت تم نے جب شمع بجھائی تو سمجھ میں آیا
یہ کیا خواب تمہارے نکلے اور عذاب ہمارے
یہ کیا خواب تمہارے نکلے اور عذاب ہمارے چھلکی چھلکی آنکھیں لیکن دل پایاب ہمارے یہ کیا شہر کے پھول بھی پوچھیں رنگ بہار کی
ذہن رہتا ہے بدن خواب کے دم تک اس کا
ذہن رہتا ہے بدن خواب کے دم تک اس کا پھر وہی رنج وہی خیمۂ غم تک اس کا میری آنکھیں میری دہلیز پہ رکھ
میں طشت خواب لیے ہاتھ میں گزر گئی ہوں
میں طشت خواب لیے ہاتھ میں گزر گئی ہوں سمجھ سکا نہ وہ جس کے لیے میں گھر گئی ہوں بہت عجب تھی سمندر سے