Krishan Mohan
- 28 November 1922-2004
- Sialkot, British India
Introduction
“Poetry is when an emotion has found its thought and the thought founds words”. Krishan Mohan was an Urdu poet. His poetry is famous among poetry lovers. A vast collection of his poetry is available here. Read on his poetry to explore a whole new world.
Ghazal
دوئی کا نقش فنا ہو تو لطف آ جائے
دوئی کا نقش فنا ہو تو لطف آ جائے انا میں رنگ غنا ہو تو لطف آ جائے ہمارے جذب دروں کے لیے دل دوراں
حیات اک سلسلہ ہے آشفتہ جانیوں کا
حیات اک سلسلہ ہے آشفتہ جانیوں کا ملا مجھے خوب یہ صلہ جاں فشانیوں کا فریب دہ ہے جنوں بقا کی نشانیوں کا یہ عالم
ہم تو اب جاتی رتیں ہیں ہم سے یہ اغماض کیوں
ہم تو اب جاتی رتیں ہیں ہم سے یہ اغماض کیوں جرم کیا ہم نے کیا ہے آپ ہیں ناراض کیوں مال و زر سے
ملا ایک گونہ سکوں ہمیں جو تمہارے ہجر میں رو لیے
ملا ایک گونہ سکوں ہمیں جو تمہارے ہجر میں رو لیے ذرا بار قلب سبک ہوا کئی داغ درد کے دھو لیے ہو نشاط دل
مدھم ہو گئے اپنے سپنے بے دم ہو گئیں اپنی تلاشیں
مدھم ہو گئے اپنے سپنے بے دم ہو گئیں اپنی تلاشیں ویراں دل میں دفن ہیں کتنی رنگیں امیدوں کی لاشیں پیہم اپنے اشک بہے
خواہش پہاڑ جس کے تلے دب گیا ہوں میں
خواہش پہاڑ جس کے تلے دب گیا ہوں میں پہلے تھا برقرار یہیں اب گیا ہوں میں میرا عبث یہ سوگ ہے یہ کس کے
یاس کہتی ہے اجالے سے اندھیرے بن جا
یاس کہتی ہے اجالے سے اندھیرے بن جا آس کا حکم ہے چاہت کا سویرا بن جا حسن پر کیف سے کر رام دل اہل
یاس و غم میں اے ملن کی آس کے آنسو چمک
یاس و غم میں اے ملن کی آس کے آنسو چمک عقل کی ظلمت میں اے احساس کے جگنو چمک دل رہین یاس ہے محسوس
Nazm
دھند کی کائنات
جسم پتہ ہے پھیلی رگیں خواہشیں رنجشیں کاہشیں موت اک بھوت ہے زندگی میگھ دوت وہ بھی ہے اک دھواں یہ بھی ہے اک دھواں
زندگی اور موت
موت ہے زیست کی ہم سفر ایک ہی وقت پر جینے کے ساتھ مرتا چلا جا رہا ہے بشر موت اور زیست اک دوسرے سے
خاتمہ
ایسے لگتا ہے کہ جیسے ہو گیا ہے آج میرا خاتمہ اور میری سوچ میری آتما میری البیلی اداسی مست سنیاسی بھٹکتی پھر رہی ہے
بیتے دن کا اخبار
وقت کا کھیل ہے دلوں کا میل زندگی اک ظہور ہنگامی جس طرح پڑھ کے روز کا اخبار ڈال دیتے ہیں لوگ ردی میں آدمی
زنا بلجبر
کنفیوشیس نے کہا تھا ہو نہ چھٹکارا زنابلجبر سے تو ہار مانو لیٹ جاؤ لطف اٹھاؤ اور اسے مقسوم جانو اور گاندھی نے کہا ہے
شرطیہ لڑکا
کیسے کیسے وہم پلتے ہیں بشر کے ذہن میں بھی چند جرعے شیر کا خوں نوش کرنا رات کو میتھن سے پہلے یا کشادہ چاندنی
ببیں تفاوت رہ
عجب تھا ہند پارینہ کا وہ قانون بھی جس میں جو کوئی مرد آوارہ کسی عورت کو صندل زیورات جوہر و زر پیرہن مالا شراب