Majeed Amjad
- 29 June 1914-11 May 1974
- Jhang, Punjab, Pakistan
Introduction
“لوح دل” نامی ان کے مکمل شاعرانہ کام میں تقریبا 600 صفحات غزلوں اور نظموں پر مشتمل ہیں جو 1987 میں شائع ہوا تھا.
Ghazal
کیا روپ دوستی کا کیا رنگ دشمنی کا
کیا روپ دوستی کا کیا رنگ دشمنی کا کوئی نہیں جہاں میں کوئی نہیں کسی کا اک تنکا آشیانہ اک راگنی اثاثہ اک موسم بہاراں
میری مانند خود نگر تنہا
میری مانند خود نگر تنہا یہ صراحی میں پھول نرگس کا اتنی شمعیں تھیں تیری یادوں کی اپنا سایہ بھی اپنا سایہ نہ تھا میرے
چہرہ اداس اداس تھا میلا لباس تھا
چہرہ اداس اداس تھا میلا لباس تھا کیا دن تھے جب خیال تمنا لباس تھا عریاں زمانہ گیر شررگوں جبلتیں کچھ تھا تو ایک برگ
اپنے دل کی کھوج میں کھو گئے کیا کیا لوگ
اپنے دل کی کھوج میں کھو گئے کیا کیا لوگ آنسو تپتی ریت میں بو گئے کیا کیا لوگ کرنوں کے طوفان سے بجرے بھر
برس گیا بہ خرابات آرزو ترا غم
برس گیا بہ خرابات آرزو ترا غم قدح قدح تری یادیں سبو سبو ترا غم ترے خیال کے پہلو سے اٹھ کے جب دیکھا مہک
اس اپنی کرن کو آتی ہوئی صبحوں کے حوالے کرنا ہے
اس اپنی کرن کو آتی ہوئی صبحوں کے حوالے کرنا ہے کانٹوں سے الجھ کر جینا ہے پھولوں سے لپٹ کر مرنا ہے شاید وہ
پھر تو سب ہم درد بہت افسوس کے ساتھ یہ کہتے تھے
پھر تو سب ہم درد بہت افسوس کے ساتھ یہ کہتے تھے خود ہی لڑے بھنور سے کیوں زحمت کی ہم جو بیٹھے تھے دلوں
چاندنی میں سایہ ہائے کاخ و کو میں گھومیے
چاندنی میں سایہ ہائے کاخ و کو میں گھومیے پھر کسی کو چاہنے کی آرزو میں گھومیے شاید اک بھولی تمنا مٹتے مٹتے جی اٹھے
کبھی تو سوچ ترے سامنے نہیں گزرے
کبھی تو سوچ ترے سامنے نہیں گزرے وہ سب سمے جو ترے دھیان سے نہیں گزرے یہ اور بات کہ ہوں ان کے درمیاں میں
عشق کی ٹیسیں جو مضراب رگ جاں ہو گئیں
عشق کی ٹیسیں جو مضراب رگ جاں ہو گئیں روح کی مدہوش بے داری کا ساماں ہو گئیں پیار کی میٹھی نظر سے تو نے
قاصد مست گام موج صبا
قاصد مست گام موج صبا کوئی رمز خرام موج صبا وادیٔ برف کا کوئی سندیس میرے اشکوں کے نام موج صبا کوئی موج خیال میں
ہو کے اس چشم مے پرست سے مست
ہو کے اس چشم مے پرست سے مست کیا الجھتا ہے آج مست سے مست ایک ہی لغزش اور گزر بھی گئے عقل کے ہر
Nazm
دستک
کس نے دروازہ کھٹکھٹایا ہے جا کے دیکھوں تو کون آیا ہے کون آیا ہے میرے دوارے پر رات آئی کہاں بچارے پر میرے چھپر
اے ری چڑیا
جانے اس روزن میں بیٹھے بیٹھے تو کس دھیان میں تیری چڑیا اے ری چڑیا بیٹھے بیٹھے تو نے کتنی لاج سے دیکھا پیتل کے
ریڈنگ روم
میز پر اخبار کے پھیلے ورق بکھرے بکھرے تیرہ تیرہ چاک چاک ڈھل گئی ہے قالب الفاظ میں سینۂ ہستی کی آہ دردناک پاس ہی
جوانی کی کہانی
نہ چھیڑ اے دل جوانی کی کہانی کسی کی دل ستانی کی کہانی وہ سوز زندگی افروز کا ذکر وہ درد جاودانی کی کہانی وہ
ایک شام
ندی کے لرزتے ہوئے پانیوں پر تھرکتی ہوئی شوخ کرنوں نے چنگاریاں گھول دی ہیں تھکی دھوپ نے آ کے لہروں کی پھیلی ہوئی ننگی
اپنے دل میں ڈر
اپنے دل میں ڈر ہو تو یہ بادل کس کو لبھا سکتے ہیں اپنے دل میں ڈر ہو تو سب رتیں ڈراؤنی لگتی ہیں اور
یاد
ایک اجلا سا کانپتا دھبا ذہن کی سطح پر لڑھکتا ہوا نقش، جس میں کبھی سمٹ آئی لاکھ یادوں کی مست انگڑائی داغ جس کی
ماڈرن لڑکیاں
سنہری دوپہروں روپہلی رتوں میں سورج مکھی کے شگوفوں کے پاس چناروں سے قد آور ستاروں سے نین زر افشاں بدن زعفرانی لباس حسین گوریاں
صبح جدائی
اب دھندلی پڑتی جاتی ہے تاریکئ شب میں جاتا ہوں وہ صبح کا تارا ابھرا وہ پو پھوٹی اب میں جاتا ہوں جاتا ہوں اجازت
برہنہ
فرنگی جریدوں کے اوراق رنگین ہنستی، لچکتی، دھڑکتی، لکیریں کٹیلے بدن تیغ کی دھار جیسے! لہو رس میں گوندھے ہوئے جسم، ریشم کے انبار جیسے!
ایکٹرس کا کنٹریکٹ
مرا وجود زندگی کا بھید ہے دیکھ یہ ایک ہونٹ کے شعلے پہ برگ گل سے خراش یہ ایک جسم کے کندن میں گدگدی سے
جاروب کش
آسمانوں کے تلے سبز و خنک گوشوں میں کوئی ہوگا جسے اک ساعت راحت مل جائے یہ گھڑی تیرے مقدر میں نہیں ہے نہ سہی
Sher
میں ایک پل کے رنج فراواں میں کھو گیا
میں ایک پل کے رنج فراواں میں کھو گیا مرجھا گئے زمانے مرے انتظار میں مجید امجد
زندگی کی راحتیں ملتی نہیں ملتی نہیں
زندگی کی راحتیں ملتی نہیں ملتی نہیں زندگی کا زہر پی کر جستجو میں گھومیے مجید امجد
تری یاد میں جلسہ تعزیت
تری یاد میں جلسہ تعزیت تجھے بھول جانے کا آغاز تھا مجید امجد
اس جلتی دھوپ میں یہ گھنے سایہ دار پیڑ
اس جلتی دھوپ میں یہ گھنے سایہ دار پیڑ میں اپنی زندگی انہیں دے دوں جو بن پڑے مجید امجد
ہر وقت فکر مرگ غریبانہ چاہئے
ہر وقت فکر مرگ غریبانہ چاہئے صحت کا ایک پہلو مریضانہ چاہئے مجید امجد
یہ کیا طلسم ہے یہ کس کی یاسمیں بانہیں
یہ کیا طلسم ہے یہ کس کی یاسمیں بانہیں چھڑک گئی ہیں جہاں در جہاں گلاب کے پھول مجید امجد
چاندنی میں سایہ ہائے کاخ و کو میں گھومیے
چاندنی میں سایہ ہائے کاخ و کو میں گھومیے پھر کسی کو چاہنے کی آرزو میں گھومیے مجید امجد
دن کٹ رہے ہیں کشمکش روزگار میں
دن کٹ رہے ہیں کشمکش روزگار میں دم گھٹ رہا ہے سایۂ ابر بہار میں مجید امجد