Majrooh Sultanpuri
- 1 October 1919 − 24 May 2000
- Sultanpur, United Provinces of Agra and Oudh, British India
Introduction
مجروح سلطانپوری سلطان پور، اترپردیش میں راجپوت مسلم خاندان میں پیدا ہوئے تھے. ان کے والد محکمہ پولیس میں کام کر رہے تھے. ان کے والد اپنے بیٹے کی انگریزی تعلیم حاصل کرنے پر خوش نہیں تھے. لہذا انہیں ‘مدرسہ’ بھیج دیا گیا اور انہیں درس-ای-نظامی کی اہلیت ملی. اس کے بعد، انہوں نے لکھنؤ کے تکمیل-ات-طب کالج آف یونانی میڈیسن میں شمولیت اختیار کی. وہ حکیم کی حیثیت سے جدوجہد کر رہے تھے جب ایک دن وہ سلطان پور کے ایک مشاعرہ میں اپنی ایک غزل کہی. غزل سامعین میں مشہور ہو گئی اور انہوں نے پھر طب کی دنیا کو خیرآباد کہا اور شاعری مرتب کرنا شروع کردی. جلد ہی وہ مشاعروں میں ‘باقاعدہ’ جانے لگے تھے اور جگر مرادآبادی کے شاگرد بن گئے. مجروہ سلطانپوری ایک گیت نگار اور اردو شاعری کی حیثیت سے مشہور ہوئے.
“میں اکیلا ہی چلا تھا جانب منزل مگر، لوگ ملتے گئے کارواں بنتا گیا”
مجروح نے اس دھن کی وجہ سے اپنا واحد فلم فیئر ایوارڈ جیتا. لکشمی کانت نے بھی دوستی کے گانے کے لئے اپنا پہلا فلم فیئر ایوارڈ جیتا. مجروح اور لکشمی کانت نے اجتماعی طور پر تقریبا 40 فلموں پر کام کیا. لکشمی اور مجروح کی ٹیم نے شاندار، اور قابل ذکر البمز تیار کیے. وہ کچھ عرصے سے پھیپھڑوں کے انفیکشن میں مبتلا تھے اور نمونیہ نے ان پر خوفناک حملہ کیا تھا. ان کا انتقال 24 مئی 2000 کو ممبئی میں ہوا. سلطان پور میونسپل کارپوریشن نے دیوانی چوراہے کے قریب انکی یاد میں “مجروح سلطانپوری اڈیان” نامی ایک باغ تعمیر کیا.
Ghazal
آخر غم جاناں کو اے دل بڑھ کر غم دوراں ہونا تھا
آخر غم جاناں کو اے دل بڑھ کر غم دوراں ہونا تھا اس قطرے کو بننا تھا دریا اس موج کو طوفاں ہونا تھا ہر
شام غم کی قسم آج غمگیں ہیں ہم آ بھی جا آ بھی جا آج میرے صنم
شام غم کی قسم آج غمگیں ہیں ہم آ بھی جا آ بھی جا آج میرے صنم دل پریشان ہے رات ویران ہے دیکھ جا
جو سمجھاتے بھی آ کر واعظ برہم تو کیا کرتے
جو سمجھاتے بھی آ کر واعظ برہم تو کیا کرتے ہم اس دنیا کے آگے اس جہاں کا غم تو کیا کرتے حرم سے مے
ادائے طول سخن کیا وہ اختیار کرے
ادائے طول سخن کیا وہ اختیار کرے جو عرض حال بہ طرز نگاہ یار کرے بہت ہی تلخ نوا ہوں مگر عزیز وطن میں کیا
چمن ہے مقتل نغمہ اب اور کیا کہیے
چمن ہے مقتل نغمہ اب اور کیا کہیے بس اک سکوت کا عالم جسے نوا کہیے اسیر بند زمانہ ہوں صاحبان چمن مری طرف سے
دور دور مجھ سے وہ اس طرح خراماں ہے
دور دور مجھ سے وہ اس طرح خراماں ہے ہر قدم ہے نقش دل ہر نگہ رگ جاں ہے بن گئی ہے مستی میں دل
وہ تو گیا یہ دیدۂ خوں بار دیکھیے
وہ تو گیا یہ دیدۂ خوں بار دیکھیے دامن پہ رنگ پیرہن یار دیکھیے دکھلا کے وہ تو لے بھی گیا شوخی خرام اب تک
اس باغ میں وہ سنگ کے قابل کہا نہ جائے
اس باغ میں وہ سنگ کے قابل کہا نہ جائے جب تک کسی ثمر کو مرا دل کہا نہ جائے شاخوں پہ نوک تیغ سے
ختم شور طوفاں تھا دور تھی سیاہی بھی
ختم شور طوفاں تھا دور تھی سیاہی بھی دم کے دم میں افسانہ تھی مری تباہی بھی التفات سمجھوں یا بے رخی کہوں اس کو
وہ جس پہ تمہیں شمع سر رہ کا گماں ہے
وہ جس پہ تمہیں شمع سر رہ کا گماں ہے وہ شعلۂ آوارہ ہماری ہی زباں ہے اب ہاتھ ہمارے ہے عناں رخش جنوں کی
رہتے تھے کبھی جن کے دل میں ہم جان سے بھی پیاروں کی طرح
رہتے تھے کبھی جن کے دل میں ہم جان سے بھی پیاروں کی طرح بیٹھے ہیں انہی کے کوچے میں ہم آج گنہ گاروں کی
اٹھائے جا ان کے ستم اور جئے جا
اٹھائے جا ان کے ستم اور جئے جا یوں ہی مسکرائے جا آنسو پئے جا یہی ہے محبت کا دستور اے دل وہ غم دے
Sher
سیر ساحل کر چکے اے موج ساحل سر نہ مار
سیر ساحل کر چکے اے موج ساحل سر نہ مار تجھ سے کیا بہلیں گے طوفانوں کے بہلائے ہوئے مجروح سلطانپوری
تشنگی ہی تشنگی ہے کس کو کہیے مے کدہ
تشنگی ہی تشنگی ہے کس کو کہیے مے کدہ لب ہی لب ہم نے تو دیکھے کس کو پیمانہ کہیں مجروح سلطانپوری
اب کارگہ دہر میں لگتا ہے بہت دل
اب کارگہ دہر میں لگتا ہے بہت دل اے دوست کہیں یہ بھی ترا غم تو نہیں ہے مجروح سلطانپوری
گلوں سے بھی نہ ہوا جو مرا پتا دیتے
گلوں سے بھی نہ ہوا جو مرا پتا دیتے صبا اڑاتی پھری خاک آشیانے کی مجروح سلطانپوری
میں کہ ایک محنت کش میں کہ تیرگی دشمن
میں کہ ایک محنت کش میں کہ تیرگی دشمن صبح نو عبارت ہے میرے مسکرانے سے مجروح سلطانپوری
اشکوں میں رنگ و بوئے چمن دور تک ملے
اشکوں میں رنگ و بوئے چمن دور تک ملے جس دم اسیر ہو کے چلے گلستاں سے ہم مجروح سلطانپوری
بے تیشہ نظر نہ چلو راہ رفتگاں
بے تیشہ نظر نہ چلو راہ رفتگاں ہر نقش پا بلند ہے دیوار کی طرح مجروح سلطانپوری
پھر آئی فصل کہ مانند برگ آوارہ
پھر آئی فصل کہ مانند برگ آوارہ ہمارے نام گلوں کے مراسلات چلے مجروح سلطانپوری
ہم کو جنوں کیا سکھلاتے ہو ہم تھے پریشاں تم سے زیادہ
ہم کو جنوں کیا سکھلاتے ہو ہم تھے پریشاں تم سے زیادہ چاک کئے ہیں ہم نے عزیزو چار گریباں تم سے زیادہ مجروح سلطانپوری
مجروحؔ لکھ رہے ہیں وہ اہل وفا کا نام
مجروحؔ لکھ رہے ہیں وہ اہل وفا کا نام ہم بھی کھڑے ہوئے ہیں گنہ گار کی طرح مجروح سلطانپوری
تجھے نہ مانے کوئی تجھ کو اس سے کیا مجروح
تجھے نہ مانے کوئی تجھ کو اس سے کیا مجروح چل اپنی راہ بھٹکنے دے نکتہ چینوں کو مجروح سلطانپوری
جلا کے مشعل جاں ہم جنوں صفات چلے
جلا کے مشعل جاں ہم جنوں صفات چلے جو گھر کو آگ لگائے ہمارے ساتھ چلے مجروح سلطانپوری