Mir Taqi Mir
- February 1723 – 20 September 1810
- Agra, India
Introduction
میر کو عام طور پر ایک شاعر سمجھا جاتا ہے ، لیکن اس کی عمدہ حیثیت اس بات پر ہے کہ اس نے وجودی مشکلات کو کس طرح حل کیا ، ایک شکل پیدا کی ، اس کی زبان تیار کی ، اور اسے کمال تک پہنچایا. ان کی شاعری کی ایک سب سے انوکھی خصوصیت یہ ہے کہ اس نے زندگی اور زندگی کے ہر حصے میں اپنے آپ کو مکمل اخلاص اور کشادگی کے ساتھ بیان کیا ہے. انہوں نے اردو زبان میں چھ دیوان اور ایک فارسی غزلوں کا دیوان اور اسکے علاوہ مسدس ، مثنوی اور قصیدے لکھے ہیں. انہوں نے نوکاتوشوارا ( اردو شاعروں کا ایک تذکرہ ) زکر-ای میر ( ایک سوانح عمری ) بھی لکھی ہے, اور فیض ای میر ( صوفی شہدا کی خصوصیت ) جو اسے شاعر ، دائمی اور طرح کے نقاد کی حیثیت سے اردو ادب میں ایک اہمیت کا حامل مقام فراہم کرتا ہے۔
Ghazal
کیا میں بھی پریشانی خاطر سے قریں تھا
کیا میں بھی پریشانی خاطر سے قریں تھا آنکھیں تو کہیں تھیں دل غم دیدہ کہیں تھا کس رات نظر کی ہے سوئی چشمک انجم
برقع اٹھا تھا رخ سے مرے بد گمان کا
برقع اٹھا تھا رخ سے مرے بد گمان کا دیکھا تو اور رنگ ہے سارے جہان کا مت مانیو کہ ہوگا یہ بے درد اہل
دل گئے آفت آئی جانوں پر
دل گئے آفت آئی جانوں پر یہ فسانہ رہا زبانوں پر عشق میں ہوش و صبر سنتے تھے رکھ گئے ہاتھ سو تو کانوں پر
بزم میں جو ترا ظہور نہیں
بزم میں جو ترا ظہور نہیں شمع روشن کے منہ پہ نور نہیں کتنی باتیں بنا کے لاؤں ایک یاد رہتی ترے حضور نہیں خوب
کچھ تو کہہ وصل کی پھر رات چلی جاتی ہے
کچھ تو کہہ وصل کی پھر رات چلی جاتی ہے دن گزر جائیں ہیں پر بات چلی جاتی ہے رہ گئے گاہ تبسم پہ گہے
کاش اٹھیں ہم بھی گنہ گاروں کے بیچ
کاش اٹھیں ہم بھی گنہ گاروں کے بیچ ہوں جو رحمت کے سزاواروں کے بیچ جی سدا ان ابروؤں ہی میں رہا کی بسر ہم
کیا کہوں کیسا ستم غفلت سے مجھ پر ہو گیا
کیا کہوں کیسا ستم غفلت سے مجھ پر ہو گیا قافلہ جاتا رہا میں صبح ہوتے سو گیا بے کسی مدت تلک برسا کی اپنی
جی میں ہے یاد رخ و زلف سیہ فام بہت
جی میں ہے یاد رخ و زلف سیہ فام بہت رونا آتا ہے مجھے ہر سحر و شام بہت دست صیاد تلک بھی نہ میں
شاید اس سادہ نے رکھا ہے خط
شاید اس سادہ نے رکھا ہے خط کہ ہمیں متصل لکھا ہے خط شوق سے بات بڑھ گئی تھی بہت دفتر اس کو لکھیں ہیں
لب ترے لعل ناب ہیں دونوں
لب ترے لعل ناب ہیں دونوں پر تمامی عتاب ہیں دونوں رونا آنکھوں کا روئیے کب تک پھوٹنے ہی کے باب ہیں دونوں ہے تکلف
درد و اندوہ میں ٹھہرا جو رہا میں ہی ہوں
درد و اندوہ میں ٹھہرا جو رہا میں ہی ہوں رنگ رو جس کے کبھو منہ نہ چڑھا میں ہی ہوں جس پہ کرتے ہو
کیا موافق ہو دوا عشق کے بیمار کے ساتھ
کیا موافق ہو دوا عشق کے بیمار کے ساتھ جی ہی جاتے نظر آئے ہیں اس آزار کے ساتھ رات مجلس میں تری ہم بھی
Nazm
Sher
دل سے رخصت ہوئی کوئی خواہش
دِل سے رخصت ہوئی کوئی خواہش گریہ کچھ بے سبب نہیں آتا میر تقی میر
عہد جوانی رو رو کاٹا پیری میں لیں آنکھیں موند
عہد جوانی رُو رُو کاٹا پیری میں لیں آنکھیں موند یعنی رات بہت تھے جاگے صُبح ہوئی آرام کیا میر تقی میر
کھلنا کم کم کلی نے سیکھا ہے
کھلنا کم کم کلی نے سیکھا ہے اُس کی آنکھوں کی نیم خوابی سے میر تقی میر
عشق ہے عشق کرنے والوں کو
عِشق ہے عِشق کرنے والوں کو کیسا کیسا بہم کیا ہے عِشق میر تقی میر
کچھ ہو رہے گا عشق و ہوس میں بھی امتیاز
کچھ ہو رہے گا عِشق و ہوس میں بھی امتیاز آیا ہے اب مزاج تیرا امتحان پر میر تقی میر
کاسہ چشم لے کہ جوں نرگس
کاسہ چشم لے کہ جوں نرگس ہم نے دیدار کی گدائی کی میر تقی میر
کچھ کرو فکر مجھ دیوانے کی
کچھ کرو فکر مُجھ دیوانے کی دھوم ہے پھر بہار آنے کی میر تقی میر
آدم خاکی سے عالم کو جلا ہے ورنہ
آدم خاکی سے عالم کو جلا ہے ورنہ آئینہ تھا تُو مگر قابِل دیدار نہ تھا میر تقی میر
جو تجھ بن نہ جینے کو کہتے تھے ہم
جُو تُجھ بن نہ جینے کو کہتے تھے ہم سُو اس عہد کو اب وفا کر چلے میر تقی میر
پیدا کہاں ہیں ایسے پراگندہ طبع لوگ
پیدا کہاں ہیں ایسے پراگندہ طبع لوگ افسوس تُم کو میرؔ سے صحبت نہیں رہی میر تقی میر
کچھ نہیں سوجھتا ہمیں اس بن
کچھ نہیں سوجھتا ہمیں اُس بن شُوق نے ہم کو بے حواس کیا میر تقی میر
میرؔ جی زرد ہوتے جاتے ہو
میرؔ جی زرد ہوتے جاتے ہو کیا کہیں تم نے بھی کیا ہے عِشق میر تقی میر
Marsiya
Rubai
پھر عشق میں میرؔ پاؤں دھرتا ہے گا
پھر عشق میں میرؔ پاؤں دھرتا ہے گا جی اور منغض اپنا کرتا ہے گا سب مل کے چلو بارے اسے سمجھاویں افسوس کہ وہ
لو یار ستمگر نے لڑائی کی ہے
لو یار ستمگر نے لڑائی کی ہے اک ہی تلوار میں صفائی کی ہے اس کوچے کی راہ نعش میری جاوے واں میرؔ بہت میں
تسبیح کو مدتوں سنبھالا ہم نے
تسبیح کو مدتوں سنبھالا ہم نے خرقہ برسوں گلے میں ڈالا ہم نے اب آخر عمر میرؔ مے کی خاطر سجادہ گرو رکھنے نکالا ہم
مدت کے جو بعد جی بحال آتا ہے
مدت کے جو بعد جی بحال آتا ہے خاطر پہ جہاں جہاں ملال آتا ہے وے ووں گئے جان یوں چلی جاتی ہے آہ رہ
کچھ میرؔ تکلف تو نہیں اپنے تئیں
کچھ میرؔ تکلف تو نہیں اپنے تئیں ان روزوں نہیں پاتے کہیں اپنے تئیں اب جی تو بہت بتنگ آیا اے کاش جاویں ہم چھوڑ
درپیش ہے میرؔ راہ تجھ کو پیارے
درپیش ہے میرؔ راہ تجھ کو پیارے غفلت سے نہیں نگاہ تجھ کو پیارے آتے ہیں نظر جاتے یہ سارے اسباب سوجھے گی کبھو بھی
گو روکش ہفتاد و دو ملت ہم ہیں
گو روکش ہفتاد و دو ملت ہم ہیں مرآت بدن نماے وحدت ہم ہیں بے اپنے نمود اس کی اتنی معلوم معنی محبوب ہے تو
زانو پہ قد خم شدہ سر کو لایا
زانو پہ قد خم شدہ سر کو لایا جاے دنداں کو ہم نے خالی پایا آنکھوں کی بصارت میں تفاوت آیا پیری نے عجب سماں
اے تازہ نہال عاشقی کے مالی
اے تازہ نہال عاشقی کے مالی یہ تونے طرح ناز کی کیسی ڈالی سب تجھ سے جہاں بھرا ہے تس کے اوپر دیکھیں ہیں کہ
Qita
Manqabat
Masnavi
Naat
Salam
Qasida
Miriyaat
تیرا رخ مخطط قرآن ہے ہمارا
تیرا رخ مخطط قرآن ہے ہمارا بوسہ بھی لیں تو کیا ہے ایمان ہے ہمارا ہیں اس خراب دل سے مشہور شہر خوباں اس ساری
لڑ کے پھر آئے ڈر گئے شاید
لڑ کے پھر آئے ڈر گئے شاید بگڑے تھے کچھ سنور گئے شاید سب پریشاں دلی میں شب گزری بال اس کے بکھر گئے شاید
اے تو کہ یاں سے عاقبت کار جائے گا
اے تو کہ یاں سے عاقبت کار جائے گا غافل نہ رہ کہ قافلہ اک بار جائے گا موقوف حشر پر ہے سو آتے بھی
جائے ہے جی نجات کے غم میں
جائے ہے جی نجات کے غم میں ایسی جنت گئی جہنم میں نزع میں میرے ایک دم ٹھہرو دم ابھی ہیں ہزار اک دم میں
ایسی گلی اک شہر اسلام نہیں رکھتا
ایسی گلی اک شہر اسلام نہیں رکھتا جس کوچے میں وہ بت صد بدنام نہیں رکھتا آزار نہ دے اپنے کانوں کے تئیں اے گل
ہے غزل میرؔ یہ شفائیؔ کی
ہے غزل میرؔ یہ شفائیؔ کی ہم نے بھی طبع آزمائی کی اس کے ایفائے عہد تک نہ جیے عمر نے ہم سے بے وفائی
جو اس شور سے میرؔ روتا رہے گا
جو اس شور سے میرؔ روتا رہے گا تو ہمسایہ کاہے کو سوتا رہے گا میں وہ رونے والا جہاں سے چلا ہوں جسے ابر
مفت آبروئے زاہد علامہ لے گیا
مفت آبروئے زاہد علامہ لے گیا اک مغبچہ اتار کے عمامہ لے گیا داغ فراق و حسرت وصل آرزوئے شوق میں ساتھ زیر خاک بھی
کل لے گئے تھے یار ہمیں بھی چمن کے بیچ
کل لے گئے تھے یار ہمیں بھی چمن کے بیچ اس کی سی بو نہ آئی گل و یاسمن کے بیچ کشتہ ہوں میں تو
طریق عشق میں ہے رہنما دل
طریق عشق میں ہے رہنما دل پیمبر دل ہے قبلہ دل خدا دل قیامت تھا مروت آشنا دل موئے پر بھی مرا اس میں رہا
بود نقش و نگار سا ہے کچھ
بود نقش و نگار سا ہے کچھ صورت اک اعتبار سا ہے کچھ یہ جو مہلت جسے کہیں ہیں عمر دیکھو تو انتظار سا ہے
جنوں میں اب کے کام آئی نہ کچھ تدبیر بھی آخر
جنوں میں اب کے کام آئی نہ کچھ تدبیر بھی آخر گئی کل ٹوٹ میرے پاؤں کی زنجیر بھی آخر اگر ساکت ہیں ہم حیرت