Mohsin Naqvi
- 5 May 1947-15 January 1996
- Punjab, Pakistan
Introduction
ان کی شاعری میں صرف الف لیلیٰ کی محبت نہیں تھی بلکہ اس نے زمین کے حکمرانوں کے خلاف بھی لکھا تھا جو اپنے لوگوں کی پرواہ نہیں کرتے ہیں. انکا لکھا ہوا گیت لہروں کی طرح تجھ کو بِکھرنے نہیں دینگے نے ایک فلم “بازار-حسن” کے لئے بہترین فلم ایوارڈ جیتا۔
وہ 15 جنوری 1996 کو مرکزی بازار لاہور میں مارے گئے تھے. ان کی آخری رسومات ناصر باغ ، لاہور میں منعقد ہوئی تھیں جن کی سربراہی تحریک نفاز فقہ-جعفریہ ، چیف الامہ آغا سید حمید علی شاہ موسوی نے کی تھی. اس کے بعد ان کی لاش ان کے آبائی گھر ڈیرہ غازی خان میں منتقل کردی گئی جہاں انہیں ہزاروں افراد کی موجودگی میں دفن کیا گیا۔
اردو شاعری میں ان کی تصانیف خیمہ-ای-جان ، برگ-ای-صحرا ، عزاب-دید ، ردا-ای۔خواب ، اور طلوع-ای-اشک وغیرہ ہیں۔
Ghazal
کس نے سنگ خامشی پھینکا بھرے بازار پر
کس نے سنگ خامشی پھینکا بھرے بازار پر اک سکوت مرگ طاری ہے در و دیوار پر تو نے اپنی زلف کے سائے میں افسانے
خمار موسم خوشبو حد چمن میں کھلا
خمار موسم خوشبو حد چمن میں کھلا مری غزل کا خزانہ ترے بدن میں کھلا تم اس کا حسن کبھی اس کی بزم میں دیکھو
جگنو گہر چراغ اجالے تو دے گیا
جگنو گہر چراغ اجالے تو دے گیا وہ خود کو ڈھونڈنے کے حوالے تو دے گیا اب اس سے بڑھ کے کیا ہو وراثت فقیر
ہوائے ہجر میں جو کچھ تھا اب کے خاک ہوا
ہوائے ہجر میں جو کچھ تھا اب کے خاک ہوا کہ پیرہن تو گیا تھا بدن بھی چاک ہوا اب اس سے ترک تعلق کروں
پھر وہی میں ہوں وہی شہر بدر سناٹا
پھر وہی میں ہوں وہی شہر بدر سناٹا مجھ کو ڈس لے نہ کہیں خاک بسر سناٹا دشت ہستی میں شب غم کی سحر کرنے
لبوں پہ حرف رجز ہے زرہ اتار کے بھی
لبوں پہ حرف رجز ہے زرہ اتار کے بھی میں جشن فتح مناتا ہوں جنگ ہار کے بھی اسے لبھا نہ سکا میرے بعد کا
زخم کے پھول سے تسکین طلب کرتی ہے
زخم کے پھول سے تسکین طلب کرتی ہے بعض اوقات مری روح غضب کرتی ہے جو تری زلف سے اترے ہوں مرے آنگن میں چاندنی
فضا کا حبس شگوفوں کو باس کیا دے گا
فضا کا حبس شگوفوں کو باس کیا دے گا بدن دریدہ کسی کو لباس کیا دے گا یہ دل کہ قحط انا سے غریب ٹھہرا
فن کار ہے تو ہاتھ پہ سورج سجا کے لا
فن کار ہے تو ہاتھ پہ سورج سجا کے لا بجھتا ہوا دیا نہ مقابل ہوا کے لا دریا کا انتقام ڈبو دے نہ گھر
سارے لہجے ترے بے زماں ایک میں
سارے لہجے ترے بے زماں ایک میں اس بھرے شہر میں رائیگاں ایک میں وصل کے شہر کی روشنی ایک تو ہجر کے دشت میں
ہر ایک شب یوں ہی دیکھیں گی سوئے در آنکھیں
ہر ایک شب یوں ہی دیکھیں گی سوئے در آنکھیں تجھے گنوا کے نہ سوئیں گی عمر بھر آنکھیں طلوع صبح سے پہلے ہی بجھ
سانسوں کے اس ہنر کو نہ آساں خیال کر
سانسوں کے اس ہنر کو نہ آساں خیال کر زندہ ہوں ساعتوں کو میں صدیوں میں ڈھال کر مالی نے آج کتنی دعائیں وصول کیں
Nazm
مجھے اب ڈر نہیں لگتا
کسی کے دور جانے سے تعلق ٹوٹ جانے سے کسی کے مان جانے سے کسی کے روٹھ جانے سے مجھے اب ڈر نہیں لگتا کسی
یہ پچھلے عشق کی باتیں ہیں
یہ پچھلے عشق کی باتیں ہیں جب آنکھ میں خواب دمکتے تھے جب دلوں میں داغ چمکتے تھے جب پلکیں شہر کے رستوں میں اشکوں