Munawwar Rana
- 26 November 1952
- Raebareli, Uttar Pradesh, India
Introduction
“Poetry is when an emotion has found its thought and the thought founds words”. He is an Urdu poet. His poetry is famous among poetry lovers. A vast collection of his poetry is available here. Read on his poetry to explore a whole new world.
Ghazal
پھر سے بدل کے مٹی کی صورت کرو مجھے
پھر سے بدل کے مٹی کی صورت کرو مجھے عزت کے ساتھ دنیا سے رخصت کرو مجھے میں نے تو تم سے کی ہی نہیں
یہ بت جو ہم نے دوبارہ بنا کے رکھا ہے
یہ بت جو ہم نے دوبارہ بنا کے رکھا ہے اسی نے ہم کو تماشا بنا کے رکھا ہے وہ کس طرح ہمیں انعام سے
صحرا پسند ہو کے سمٹنے لگا ہوں میں
صحرا پسند ہو کے سمٹنے لگا ہوں میں اندر سے لگ رہا ہے کہ بٹنے لگا ہوں میں کیا پھر کسی سفر پہ نکلنا ہے
کچھ کھلونے کبھی آنگن میں دکھائی دیتے
کچھ کھلونے کبھی آنگن میں دکھائی دیتے کاش ہم بھی کسی بچے کو مٹھائی دیتے سونے پنگھٹ کا کوئی درد بھرا گیت تھے ہم شہر
میں اس سے پہلے کہ بکھروں ادھر ادھر ہو جاؤں
میں اس سے پہلے کہ بکھروں ادھر ادھر ہو جاؤں مجھے سنبھال لے ممکن ہے در بدر ہو جاؤں یہ آب و تاب جو مجھ
ساری دولت ترے قدموں میں پڑی لگتی ہے
ساری دولت ترے قدموں میں پڑی لگتی ہے تو جہاں ہوتا ہے قسمت بھی گڑی لگتی ہے ایسے رویا تھا بچھڑتے ہوئے وہ شخص کبھی
چلے مقتل کی جانب اور چھاتی کھول دی ہم نے
چلے مقتل کی جانب اور چھاتی کھول دی ہم نے بڑھانے پر پتنگ آئے تو چرخی کھول دی ہم نے پڑا رہنے دو اپنے بوریے
جدا رہتا ہوں میں تجھ سے تو دل بے تاب رہتا ہے
جدا رہتا ہوں میں تجھ سے تو دل بے تاب رہتا ہے چمن سے دور رہ کے پھول کب شاداب رہتا ہے اندھیرے اور اجالے
Nazm
Sher
کسی کی یاد آتی ہے تو یہ بھی یاد آتا ہے کہیں چلنے کی ضد کرنا مرا تیار ہو جانا منور رانا
محبت ایک پاکیزہ عمل ہے اس لیے شاید سمٹ کر شرم ساری ایک بوسے میں چلی آئی منور رانا
مٹی کا بدن کر دیا مٹی کے حوالے مٹی کو کہیں تاج محل میں نہیں رکھا منور رانا
اے خاک وطن تجھ سے میں شرمندہ بہت ہوں مہنگائی کے موسم میں یہ تہوار پڑا ہے منور رانا
کھلونوں کے لئے بچے ابھی تک جاگتے ہوں گے تجھے اے مفلسی کوئی بہانہ ڈھونڈ لینا ہے منور رانا
نکلنے ہی نہیں دیتی ہیں اشکوں کو مری آنکھیں کہ یہ بچے ہمیشہ ماں کی نگرانی میں رہتے ہیں منور رانا
دہلیز پہ رکھ دی ہیں کسی شخص نے آنکھیں روشن کبھی اتنا تو دیا ہو نہیں سکتا منور رانا
پچپن برس کی عمر تو ہونے کو آ گئی لیکن وہ چہرہ آنکھوں سے اوجھل نہ ہو سکا منور رانا
عشق ہے تو عشق کا اظہار ہونا چاہئے آپ کو چہرے سے بھی بیمار ہونا چاہئے منور رانا
دیکھنا ہے تجھے صحرا تو پریشاں کیوں ہے کچھ دنوں کے لیے مجھ سے مری آنکھیں لے جا منور رانا
پھینکی نہ منورؔ نے بزرگوں کی نشانی دستار پرانی ہے مگر باندھے ہوئے ہے منور رانا
کسی دن میری رسوائی کا یہ کارن نہ بن جائے تمہارا شہر سے جانا مرا بیمار ہو جانا منور رانا
Quote
آج تک ڈاکٹری وہ مقدس پیشہ ہے جس کے اعتبار کی چادر کے نیچے باپ اپنی بیٹی، بھائی اپنی جوان بہن کو تنہا چھوڑ دیتا
اردو مشاعروں کی حویلی دیکھتے دیکھتے ہی کیسی ویران ہوتی جا رہی ہے۔ حویلی کی منڈیروں پر رکھے ہوئے چراغ ایک ایک کرکے بجھتے جارہے
انٹرنیٹ کی مدد سے انگریزی ادب کے دوچار بے ربط لیکن بھاری بھرکم جملوں کا ترجمہ کرکے اردو ادب میں فرضی رعب گھانٹھنے والے فارمی