Mushtaq Ahmad Yusufi
- 4 September 1923 – 20 June 2018
- Karachi,Pakistan
Introduction
Tanz-O-Mazah
ناٹک
بے در و دیوار ناٹک گھر بنایا چاہیے صحیح نام اور پتہ بتانےسے ہم قاصر ہیں، اس لیے کہ اس میں کچھ پردہ نشینوں کے
پروٹوکول
(PROTOCOL ، تشریفات) بہت کام رفو کا نکلا چپراسی نے آکر کہا، ’’صاحب سلام بولتا ہے۔ حرامی کی عینک کھو گئی ہے۔ آپ کو انگلش
سیزر، ماتا ہری اور مرزا
’’ہائے اللہ! یہ ہاتھی کا ہاتھی کتا کا ہے کو لے آئے؟‘‘ ’’چوکیداری کے لیے۔‘‘ ’’کس کی؟‘‘ ’’گھر کی۔‘‘ ’’اس گھر کی؟‘‘ ’’ہاں! بہت ہی
جانا ہمارا کاک ٹیل پارٹی میں
ڈی۔ جے اور انگرکھا ’’تمہارے پاس D.J ہے؟‘‘ مسٹر اینڈرسن نے پوچھا۔ ’’یہ کیا ہوتی ہے؟‘‘ ’’ڈنرجیکٹ۔ بلیک ٹائی۔‘‘ ’’وہی جس کا کالر سیاہ ساٹن
فینی ڈارلنگ
رقم ڈوبنے کا منظر سارے بینک میں کھلبلی مچی ہوئی تھی۔ ہم نے احمد نواز چیمہ سے پوچھا، ’’یہ کیا شور شرابا ہے؟ بولے، ’’یہاں
موسموں کا شہر
انگریزوں کے متعلق یہ مشہور ہے کہ وہ طبعاً کم گو واقع ہوئے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ وہ فقط کھانے اور دانت اکھڑوانے کے
چارپائی اور کلچر
ایک فرانسیسی مفکر کہتا ہےکہ موسیقی میں مجھے جو بات پسند ہے وہ دراصل وہ حسین خواتین ہیں جو اپنی ننھی ننھی ہتھیلیوں پر ٹھوڑیاں
کرکٹ
مرزا عبد الودود بیگ کا دعویٰ کچھ ایسا غلط معلوم نہیں ہوتا کہ کرکٹ بڑی تیزی سے ہمارا قومی کھیل بنتا جا رہا ہے۔ قومی
صنف لاغر
سنتے چلے آئے ہیں کہ آم، گلاب اور سانپ کی طرح عورتوں کی بھی بے شمار قسمیں ہیں۔ فرق صرف اتنا ہے کہ آم اور
کافی
میںنے سوال کیا ’’آپ کافی کیوں پیتے ہیں؟‘‘ انھوں نے جواب دیا ’’آپ کیوں نہیں پیتے؟‘‘ ’’مجھے اس میں سگار کی سی بو آتی ہے۔‘‘
بائی فوکل کلب
چار مہینے ہونے آئے تھے۔ شہر کا کوئی لائق ڈاکٹر بچا ہوگا جس نے ہماری مالی تکالیف میں حسب لیاقت اضافہ نہ کیا ہو۔ لیکن
موذی
مرزا کرتے وہی ہیں جو ان کا دل چاہے لیکن اس کی تاویل عجیب و غریب کرتے ہیں۔ صحیح بات کو غلط دلائل سے ثابت
Quote
جوان لڑکی کی ایڑی میں بھی آنکھیں ہوتی ہیں۔ وہ چلتی ہے تو اسے پتہ ہوتا ہے کہ پیچھے کون کیسی نظروں سے دیکھ رہا
جو ملک جتنا غربت زدہ ہوگا اتنا ہی آلو اور مذہب کا چلن زیادہ ہوگا۔ مشتاق احمد یوسفی
گھوڑے اور عورت کی ذات کا اندازہ اس کی لات اور بات سے کیا جاتا ہے۔ مشتاق احمد یوسفی
آسمان کی چیل، چوکھٹ کی کیل اور کورٹ کے وکیل سے خدا بچائے، ننگا کرکے چھوڑتے ہیں۔ مشتاق احمد یوسفی
دشمنوں کے حسب عداوت تین درجے ہیں۔ دشمن، جانی دشمن اور رشتے دار۔ مشتاق احمد یوسفی
سچ بول کر ذلیل خوار ہونے کی بہ نسبت جھوٹ بول کر ذلیل و خوار ہونا بہتر ہے۔ آدمی کو کم از کم صبر تو
میرا عقیدہ ہے کہ جو قوم اپنے آپ پر جی کھول کر ہنس سکتی ہے وہ کبھی غلام نہیں ہو سکتی۔ مشتاق احمد یوسفی
اچھے استاد کے اندر ایک بچہ بیٹھا ہوتا ہے جو ہاتھ اٹھا اٹھا کر اور سر ہلا ہلا کر بتاتا جاتا کہ بات سمجھ میں
عورت کی ایڑی ہٹاؤ تو اس کے نیچے سے کسی نہ کسی مرد کی ناک ضرور نکلے گی۔ مشتاق احمد یوسفی
خالی بوری اور شرابی کو کون کھڑا کر سکتا ہے۔ مشتاق احمد یوسفی
مڈل کلاس غریبی کی سب سے قابل رحم اور لا علاج قسم وہ ہے جس میں آدمی کے پاس کچھ نہ ہو لیکن اسے کسی
مسلمان لڑکے حساب میں فیل ہونے کو اپنے مسلمان ہونے کی آسمانی دلیل سمجھتے ہیں۔ مشتاق احمد یوسفی